کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 267
’’ بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا بندہ جب کوئی کھانا کھائے یا پانی کا گھونٹ پیئے تو اس کا شکر ادا کرے ۔ ‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بندہ جب کھانے پینے کے بعد اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے تو وہ اس سے راضی ہو جاتا ہے ۔
یہ آیات اور احادیث تو وہ تھیں جو کھانے پینے کی نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے بارے میں ہیں ۔ اسی طرح باقی نعمتوں کے متعلق بھی انسان سے سوال کیا جائے گا کہ تم نے ان کا شکر ادا کیا تھا یا نہیں ؟
ارشاد نبوی ہے :(( یَقُولُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ:یَا ابْنَ آدَمَ !حَمَلْتُکَ عَلَی الْخَیْلِ وَالْإِبِلِ،وَزَوَّجْتُکَ النِّسَائَ،وَجَعَلْتُکَ تَرْبَعُ وَتَرْأَسُ،فَأَیْنَ شُکْرُ ذَلِکَ؟[1]))
’’اللہ تعالیٰ قیامت کے روز فرمائے گا : اے آدم کے بیٹے ! میں نے تمھیں گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار کیا ، تمھاری عورتوں سے شادی کی اور تمھیں رئیس ِ قبیلہ بنا کرعیش وعشرت سے زندگی گذارنے کا موقع دیا۔ تو ان تمام نعمتوں کا شکر کہاں ہے ؟ ‘‘
لہٰذا اُس دن کے پچھتاوے اور حسرت وندامت سے بچنے کیلئے ہم پر لازم ہے کہ آج ہی ہم اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تمام نعمتوں کی قدر کریں ، اس کے شکر گذار اور فرمانبردار بندے بنیں اور ناشکری سے اجتناب کریں ۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں :
﴿فَاذْکُرُونِیْ أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوا لِیْ وَلاَ تَکْفُرُونِ﴾ [2]
’’ پس تم مجھے یاد رکھو میں تمھیں یاد رکھوں گا اور تم میرا شکر ادا کرتے رہو اور نا شکری مت کرو ۔ ‘‘
جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر بہت کم ادا کرتے ہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ قُلْ ہُوَ الَّذِیْ أَنشَأَکُمْ وَجَعَلَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَۃَ قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُونَ﴾[3]
’’ آپ ان سے کہئے کہ اللہ ہی ہے جس نے تمھیں پیدا کیا اور تمھارے لئے کان ، آنکھیں اور دل بنائے ، مگر تم کم ہی شکر ادا کرتے ہو ۔ ‘‘
اس آیت ِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی سب سے بڑی نعمت ذکر فرمائی کہ وہی ہے جس نے تمھیں پیدا کیا،
[1] مسند أحمد ۔ قال الأرناؤط : إسنادہ صحیح علی شرط مسلم
[2] البقرۃ2 :152
[3] الملک67 :23