کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 265
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما ‘ ابو الہیثم الانصاری رضی اللہ عنہ کے ہاں تشریف لے گئے جو بہت کھجوروں اور بکریوں کے مالک تھے ، وہ اُس وقت گھر پر نہیں تھے، مہمانوں نے ان کی بیوی سے ان کے متعلق پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ وہ پانی لینے کیلئے گئے ہوئے ہیں ، تھوڑی دیر میں وہ بھی پانی کا مشکیزہ اٹھائے ہوئے پہنچ گئے ۔ آتے ہی وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چمٹ گئے اور کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، پھر وہ ان مہمانوں کو کھجوروں کے باغ میں لے گئے جہاں انھوں نے ایک چادر بچھائی ، انھیں بٹھایا اور خود ایک کھجور کے درخت سے ایک گچھا توڑ کر لے آئے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ تم تازہ کھجوریں ہی توڑ کر لے آتے ؟ ‘‘
ابو الہیثم رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے یہ پسند کیا کہ آپ اپنی مرضی سے اِس گچھے سے توڑ توڑ کر کھائیں ۔
چنانچہ انھوں نے کھجوریں تناول کیں اور مشکیزے سے پانی پیا ۔ بعد ازاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( ہَذَا وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہٖ مِنَ النَّعِیْمِ الَّتِی تُسْأَلُونَ عَنْہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، ظِلٌّ بَارِدٌ ،وَرُطَبٌ طَیِّبٌ ، وَمَائٌ بَارِدٌ )) [1]
’’ اللہ کی قسم ! یہ ان نعمتوں میں سے ہیں جن کے بارے میں تم سے قیامت کے روز سوال کیا جائے گا ، ٹھنڈا سایہ ، اچھی اور پاکیزہ کھجوریں اور ٹھنڈا پانی۔ ‘‘
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ مَا یُسْأَلُ عَنْہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ۔۔ یَعْنِی الْعَبْدَ مِنَ النَّعِیْمِ۔۔ أَنْ یُّقَالَ لَہُ : أَلَمْ نُصِحَّ لَکَ جِسْمَکَ وَنُرْوِیْکَ مِنَ الْمَائِ الْبَارِدِ ؟[2]))
’’ قیامت کے روز بندے سے نعمتوں میں سے جس نعمت کے بارے میں سب سے پہلے سوال کیا جائے گا وہ یہ ہے کہ اس سے کہا جائے گا : کیا ہم نے تمھارے بدن کو صحت نہیں دی تھی ؟ اور کیا تمھیں ٹھنڈا پانی سے سیراب نہیں کیا تھا ؟ ‘‘
ان تینوں احادیث سے ثابت ہوا کہ انسان اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں بطور غذا استعمال کرتا ہے ان کے بارے میں اس سے روزِ قیامت پوچھا جائے گا کہ تم نے ان کا شکر ادا کیا تھا یا نہیں ؟ اور یہ ساری نعمتیں کھا پی کر تم نے اپنی جسمانی توانائیوں اور صحت وتندرستی کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں کھپایا تھا یا ناشکری کرتے ہوئے اس کے
[1] سنن الترمذی : 2369۔ وصححہ الألبانی وہو فی صحیح مسلم أیضا : ۲۰۳۸
[2] سنن الترمذی :3358۔ وصححہ الألبانی