کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 258
گدھے کی لاش پر سے اٹھے ہوں اور یہ مجلس ان کیلئے باعث حسرت ہوگی ۔ ‘‘ لہٰذا ہمیں فضول مجلسوں میں بیٹھنے سے پرہیز کرنا چاہئے اور صرف ان مجلسوں میں بیٹھنا چاہئے جن میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو ۔ اس کے کلام کی تلاوت ہو ، اس کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کا تذکرہ ہو اور اس کے دین کے متعلق باتیں ہو ں اور فضول گفتگو نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ان لوگوں میں شامل فرمائے جو کثرت سے اس کا ذکر کرنے والے ہوں ۔ دوسرا خطبہ برادران اسلام! ذکر اللہ کی اہمیت ، اس کے فضائل اور ثمرات وفوائد کے بارے میں کچھ گذارشات قرآن وحدیث کی روشنی میں آپ نے سماعت کیں۔اب یہ بھی جان لیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر سے غفلت اختیار کرنے سے منع کیا ہے اور جو لوگ اس کے ذکر سے غافل رہتے ہیں ان کے بارے میں اس نے یہ واضح کردیا ہے کہ یہ لوگ یقینا خسارے میں ہیں ۔ اس کا فرمان ہے:﴿ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تُلْہِکُمْ أَمْوَالُکُمْ وَلاَ أَوْلاَ دُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذَلِکَ فَأُولٰئِکَ ہُمُ الْخَاسِرُوْنَ﴾[1] ’’ اے ایمان والو ! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کریں ۔ اور جو لوگ ایسا کریں گے وہی لوگ حقیقی معنوں میں خسارہ پانے والے ہو نگے ۔ ‘‘ لہٰذا کسی مسلمان کو اس کے ذکر سے ، اس کے دین سے ، اس کے احکام وفرائض سے اور اس کی حدود سے غافل نہیں ہونا چاہئے ، ورنہ وہ یہ بات رکھے کہ اس طرح وہ اپنا خسارہ ہی یقینی بنا رہا ہے ۔ نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَہْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلاَ تَکُنْ مِّنَ الْغَافِلِیْنَ ﴾[2] ’’ اور آپ اپنے رب کو اپنے دل میں صبح وشام یاد رکھا کیجئے ، عاجزی کے ساتھ ، ڈرتے ہوئے اور بغیر اونچی آواز کے ۔ اور غافلوں میں سے نہ ہو جائیے ۔ ‘‘ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے اور یہ حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری امت کیلئے بھی ہے کہ وہ صبح وشام اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہیں اور غافلوں میں سے نہ ہوں ۔ جس کا معنی یہ ہے کہ اگر وہ صبح وشام ذکر اللہ کا اہتمام نہیں کریں گے اور صبح وشام کے اذکار پابندی کے ساتھ نہیں پڑھیں گے تو وہ غافلوں کی صف میں
[1] المنافقون63 :9 [2] الأعراف7:205