کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 240
اذکار وادعیہ وغیرہ ۔ اسی طرح ان مخصوص اوقات وحالات کے علاوہ بھی تسبیحات ، استغفار اور تلاوتِ قرآن مجید کا باقاعدہ اہتمام کرے تو وہ کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے خوش نصیبوں میں شامل ہو سکتا ہے ۔
اور مسلمان کو یہ بات ہر وقت اپنے ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا کم ذکر کرنا منافقوں کی صفت ہے نہ کہ مسلمانوں کی ۔ جیسا کہ اس کا فرمان ہے :
﴿ إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ وَہُوَ خَادِعُہُمْ وَإِذَا قَامُوْا إِلیَ الصَّلاَۃِ قَامُوْا کُسَالیٰ یُرَائُ وْنَ النَّاسَ وَلاَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ إِلاَّ قَلِیْلاً﴾[1]
’’ بے شک منافق اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں اور وہ انھیں دھوکے میں ڈالنے والا ہے۔ اور جب وہ نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی سستی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں ، صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت ہی کم کرتے ہیں ۔ ‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی دو صفات ذکر کی ہیں ، ایک نماز کیلئے انتہائی سستی کی حالت میں کھڑا ہونا اور نماز بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر ہی ہے ۔ اور دوسری اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت کم کرنا ۔ لہٰذا ایمان والوں کا فرض یہ ہے کہ وہ منافقوں کے بر عکس نماز کیلئے چستی ، خلوص اور محبت ِ الٰہی کے ساتھ کھڑے ہوں اور اس میں اللہ کا ذکر کثرت سے کریں ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا :
(( تِلْکَ صَلَاۃُ الْمُنَافِقِ،یَجْلِسُ یَرْقُبُ الشَّمْسَ حَتّٰی إِذَا کَانَتْ بَیْنَ قَرْنَیِ الشَّیْطَانِ،قَامَ فَنَقَرَہَا أَرْبَعًا،لَا یَذْکُرُ اللّٰہَ فِیْہَا إِلَّا قَلِیْلًا )) [2]
’’ وہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان چلا جاتا ہے تو اٹھ کھڑا ہو تا ہے اور چار ٹھونگیں مار لیتا ہے۔اور اس میں اللہ کا ذکر تو بس برائے نام ہی کرتا ہے ۔ ‘‘
ذکر اللہ کے بعض فوائد
ذکر اللہ کے فوائد بہت زیادہ ہیں جن میں سے چند ایک کا ہم تذکرہ کرتے ہیں :
1۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے یاد رکھتا ہے ۔ ارشاد ربانی ہے :
[1] النساء4 :142
[2] صحیح مسلم :622