کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 232
ان دونوں حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ قرابت داروں میں صلہ رحمی اور حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق ماں کاہے ۔ پھر اس کے بعد باپ ہے اور پھر رشتہ میں سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار مثلا سگے بہن بھائی وغیرہ ۔ پھر دوسرے رشتہ داروں کا مرتبہ ہے اور ان میں محرم رشتہ دار غیر محرم رشتہ داروں پر مقدم ہیں ۔ جیسا کہ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
(( بِرَّ أُمَّکَ وَأَبَاکَ ، وَأُخْتَکَ وَأَخَاکَ ، ثُمَّ أَدْنَاکَ فَأَدْنَاکَ [1]))
’’ ماں باپ سے صلہ رحمی کر اور بہن بھائی سے ۔ پھرجو تجھ سے ( رشتہ میں )زیادہ قریبی ہو اور پھر جو تجھ سے ( رشتہ میں )زیادہ قریبی ہو۔ ‘‘
رشتہ داروں پر خرچ کرنا
کسی رشتہ دار کا نان ونفقہ کسی رشتہ دار پر واجب نہیں ہے ۔ اس لئے کہ اس کی کوئی خاص دلیل موجود نہیں ہے ۔ اور صلہ رحمی کی احادیث عام ہیں ، لہٰذا جو رشتہ دار نفقہ کا محتاج ہو وہ دیگر تمام رشتہ داروں میں صلہ کا زیادہ حقدار ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَۃٍ مِّنْ سَعَتِہٖ وَمَنْ قُدِرَ عَلَیْہِ رِزْقُہُ فَلْیُنْفِقْ مِمَّا آتَاہُ اللّٰہُ لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا إلَّا مَا آتَاہَا﴾[2]
’’ کشادگی والے کو اپنی کشادگی سے خرچ کرنا چاہئے اور جس پر اس کے رزق کی تنگی کی گئی ہو اسے چاہئے کہ جو کچھ اللہ نے اسے دے رکھا ہے اسی میں سے ( اپنی حیثیت کے مطابق ) دے ۔ کسی شخص کو اللہ تکلیف نہیں دیتا مگر اتنی ہی جتنی اسے طاقت دے رکھی ہے ۔‘‘
اور فرمایا : ﴿ عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہُ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہُ﴾[3]
’’ خوشحال اپنے انداز ے سے اور تنگ دست اپنی طاقت کے مطابق (خرچ کرے ۔) ‘‘
خرچ کرنے میں ترتیب
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[1] الحاکم:167/4،وذکرہ الحافظ فی الفتح:402/10وسکت عنہ
[2] الطلاق65 :7
[3] البقرۃ 2:236