کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 231
(کفر میں یا میرے مال میں) رغبت رکھتی ہے ۔ تو کیا میں اس کے ساتھ صلہ رحمی کروں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں اپنی ماں سے صلہ رحمی کر ۔ ‘‘[1] یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ قرابت دار خواہ کافر کیوں نہ ہوں ان سے نیکی کرنی چاہئے ۔ دوسرا خطبہ برادران اسلام ! پہلے خطبہ میں ہم نے جو کچھ بیان کیا اُس کے ساتھ ساتھ صلہ رحمی کے متعلق چند اور مسائل بھی سماعت فرما لیں ۔ صلہ رحمی میں ترتیب یعنی قرابت داروں کے ساتھ صلہ رحمی کس ترتیب سے کرنی چاہئے اس بارے میں دو احادیث سماعت کیجئے : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اوراس نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! (( مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِیْ ؟)) یعنی لوگوں میں حسن صحبت کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ قَالَ : ( أُمُّکَ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تیری ماں۔ اس نے دوبارہ سہ بارہ یہی پوچھا تو ہر بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ تیری ماں ۔ چوتھی بار فرمایا : تیرا باپ۔ پھر فرمایا :(( ثُمَّ أَدْنَاکَ فَأَدْنَاکَ )) یعنی اس کے بعد جو تجھ سے ( رشتہ میں)زیادہ قریب ہو ۔ ‘‘[2] اورحضرت المقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ اللّٰہَ یُوْصِیْکُمْ بِأُمَّہَاتِکُمْ ۔ ثَلَاثًا ۔ إِنَّ اللّٰہَ یُوْصِیْکُمْ بِآبَائِکُمْ،إن اللّٰه یُوْصِیْکُمُ بِالْأقْرَبِ فَالْأقْرَبِ[3])) ’’بے شک اللہ تعالیٰ تمھیں تمھاری ماؤں کے بارے میں وصیت کرتا ہے (کہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرو)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا اور اللہ تعالیٰ تمھیں تمھارے باپوں کے بارے میں بھی وصیت کرتا ہے ( کہ ان کے ساتھ بھی حسن سلوک کرو۔) اسی طرح اللہ تعالیٰ تمھیں رشتہ دار وں کے بارے میں بھی وصیت کرتا ہے کہ تم قربت کے لحاظ سے درجہ بدرجہ (ان کے ساتھ بھی نیکی کیا کرو ۔) ‘‘
[1] صحیح البخاری : 5978، صحیح مسلم :1003 [2] صحیح مسلم : 2548 [3] أحمد:131/4،وابن ماجہ:1207/2:3661،وصححہ الحاکم:167/4،والألبانی فی الصحیحۃ:1666