کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 230
کیوں نہ ہو ۔ اسی طرح یہ وصیت بھی کی کہ میں ( لَا حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہِ ) زیادہ سے زیادہ پڑھوں کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔[1]
جبکہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی ، میں نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہا : اے اللہ کے رسول ! مجھے فضیلت والے اعمال کے متعلق بتائیے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( یَا عُقْبَۃُ ! صِلْ مَنْ قَطَعَکَ،وَأَعْطِ مَنْ حَرَمَکَ ،وَأَعْرِضْ عَمَّنْ ظَلَمَکَ ۔ وفی روایۃ: وَاعْفُ عَمَّنْ ظَلَمَکَ [2]))
’’ اے عقبہ ! اس سے صلہ رحمی کرو جو تم سے قطع رحمی کرے ۔ اور اس کو دو جو تمھیں محروم رکھے ۔ اور اس سے اعراض کر لو جو تم پر ظلم کرے ۔ ایک روایت میں ہے کہ : اس سے درگذر کردو جو تم پر ظلم کرے۔ ‘‘
رشتہ دار کافر بھی ہوں تو ان سے صلہ رحمی کرنی چاہئے
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’بے شک بنو فلاں کی آل واولاد میرے دوست نہیں ہیں بلکہ میرا دوست اللہ اور صلحا مومنین ہیں، لیکن میری ان سے رشتہ داری ہے جس کی وجہ سے میں ان سے صلہ رحمی کرتا ہوں ۔‘‘[3]
یعنی وہ میرے رشتہ دار تو ہیں لیکن دوست نہیں کیونکہ وہ کافر ہیں لیکن رشتہ داری کی وجہ سے میں ان سے صلہ رحمی کرتا ہوں۔
بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ ( آل فلاں ) سے ابو لہب یا ابو سفیان یا حکم بن العاص یا عموما سارے قبائلِ قریش یا خصوصا بنو ہاشم یا آپ کے اعمام ( چچے ) مراد ہیں اور ظاہرِ حدیث بھی یہی ہے ۔ مطلب یہ ہوا کہ بہ سبب مسلمان نہ ہونے کے مجھے ان سے دوستانہ محبت وپیار تو نہیں ہے مگر بہ سبب قرابت میں ان سے صلہ رحمی کرتا ہوں۔ معلوم ہوا کہ صلہ رحمی کرنے کیلئے اسلام شرط نہیں ہے ۔
اسی طرح حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ’’ میری ماں‘جو کہ عہدِ قریش (صلحِ حدیبیہ ) میں مشرکہ تھی میرے پاس آئی ۔ تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میرے پاس میری ماں آئی ہے اور وہ
[1] الطبرانی وابن حبان وقال الألبانی : صحیح ۔ صحیح الترغیب والترہیب :2525
[2] احمد والحاکم ۔ قال الألبانی : صحیح ۔ صحیح الترغیب والترہیب :2536
[3] صحیح البخاری ۔ الأدب باب تبل الرحم ببلالہا :5990،صحیح مسلم:الإیمان :215