کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 214
(( إِنِّیْ لَا أَشْہَدُ عَلٰی جَوْرٍ )) ’’ میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا ۔ ‘‘[1]
6۔اولاد کو گالی گلوچ ، فحش گوئی اور بے ہودہ گفتگو کرنے سے منع کرنا چاہئے۔
کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:(( مِنَ الْکَبَائِرِ شَتْمُ الرَّجُلِ وَالِدَیْہِ، یَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ فَیَسُبُّ أَبَاہُ ، وَیَسُبُّ أُمَّہُ فَیَسُبُّ أُمَّہُ[2]))
’’ اپنے والدین کو گالیاں دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔ وہ کسی کے باپ کو گالیاں دیتا ہے تو اُس کے نتیجے میں وہ اِس کے باپ کو گالیاں دیتا ہے اور وہ کسی کی ماں کو گالیاں دیتا ہے تو وہ اِس کی ماں کو گالیاں دیتا ہے۔‘‘
گویا کسی کے ماں باپ کو گالیاں دینا اپنے ماں باپ کو گالیاں دینے کے مترادف ہے اور یہ کبیرہ گناہوں میں شامل ہے ۔
7۔ باپ کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کو ماں کی فرمانبرداری کرنے اور اس سے اچھا سلوک کرنے کی تلقین کرے۔اسی طرح ماں اپنی اولاد کو یہ بات اچھی طرح سے سمجھائے کہ وہ اپنے باپ کی فرمانبرداری اور اس کا احترام کرے اور اس کی نافرمانی نہ کرے ۔ ہم اس سے پہلے حضرت لقمان کی نصیحتوں کے ضمن میں یہ بات عرض کر چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے والدین سے خصوصا والدہ سے حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ۔اس کے علاوہ اور کئی آیات میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے اس حق کی تاکید کی ہے اور والدین کو جھڑکنے بلکہ ان کے سامنے اف تک کرنے سے منع فرمایا ہے ۔
اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کئی احادیث میں اطاعتِ والدین اور ان سے حسن سلوک کرنے کی تاکید کی ہے ۔لہٰذا والدین پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کو والدین کی اطاعت کے بارے میں وقتا فوقتا آگاہ کرتے رہیں ۔
8۔ اولاد کو صفائی کا خیال رکھنے کی تلقین کریں اور انھیں اس بات کی تعلیم دیں کہ وہ اپنا جسم ، اپنا لباس اور اپنا گھر صاف ستھرا رکھیں ۔کھانے سے پہلے اور اس کے بعد اپنے ہاتھوں کو دھوئیں۔
9۔ والدین جہاں بچوں کی دنیاوی تعلیم کا اہتمام کرتے ہیں وہاں ان پر لازم ہے کہ وہ ان کی دینی تعلیم کا بھی اہتمام کریں بلکہ دنیاوی تعلیم کی نسبت دینی تعلیم کی اہمیت زیادہ ہے۔ کیونکہ دینی تعلیم سے آراستہ ہو کر اولاد اپنے والدین کیلئے دنیا کے علاوہ آخرت میں بھی نفع بخش ہوگی اور اخروی نفع ہی زیادہ ہمارے مدِ نظر رہنا چاہئے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے بچوں کو قرآن مجید پڑھانا چاہئے ۔ اگر بچے پورا قرآن مجید حفظ کرلیں تو یہ تو بہت بڑی نعمت ہے
[1] صحیح البخاری :2650،صحیح مسلم :1623
[2] متفق علیہ