کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 212
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر عمل کیا جائے جنھیں قیامت تک کیلئے نبی بنا کر بھیجا گیا ۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیْ أَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا ﴾[1]
’’ قسم ہے تیرے پروردگار کی ! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس کے اختلافات میں آپ کو حاکم نہ مان لیں ۔ پھر جو فیصلہ آپ ان میں کردیں اس سے یہ اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں ۔ ‘‘
5۔روزِ قیامت پر ایمان لانے کا مطلب ہے اس بات پر پختہ یقین رکھنا کہ مرنے کے بعد قیامت کے روز زندہ ہونا ہے اور حساب وکتاب کیلئے اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے۔اور قیامت کے روز دو ہی ٹھکانے ہوں گے: یا جنت یا جہنم ۔ مومنوں کیلئے جنت اور کافروں کیلئے جہنم ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿زَعَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا أَن لَّن یُبْعَثُوا قُلْ بَلَی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ وَذَلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ ﴾[2]
’’کافروں کا خیال ہے کہ انھیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا ۔ آپ کہہ دیجئے کیوں نہیں ، اللہ کی قسم ! تمھیں ضرور بالضرور دوبارہ اٹھایا جائے گا ۔ پھر جو کچھ تم کرتے ہو اس کے بارے میں تمھیں یقینا خبردار کیا جائے گا اور یہ کام اللہ پر بالکل آسان ہے ۔ ‘‘
6۔ تقدیر پر ایمان لانے کا مطلب ہے اس بات کا اقرار کرنا کہ کائنات کی ہرچیز چاہے چھوٹی ہو یا بڑی اس کا علم اللہ کے پاس ہے ۔ ہر ہر کام لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے ۔ اور دنیا بھر میں کوئی کام اللہ کی مرضی کے بغیر نہیں ہوتا ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿ وَکُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنَاہُ فِیْ إِمَامٍ مُّبِیْنٍ ﴾[3]
’’اور ہم نے ہر چیز کو ایک واضح کتاب میں ضبط کر رکھا ہے۔ ‘‘
3۔ والدین کو اولاد سے جھوٹ نہیں بولنا چاہئے تاکہ انھیں جھوٹ بولنے کی عادت نہ پڑے
حضرت عبد اللہ بن عامر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر میں تشریف لائے ، اس دوران میری ماں نے مجھے بلایا اور کہا:میں تجھے کچھ دونگی ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری ماں سے پوچھا : تم نے اسے کیا چیز دینے کا ارادہ کیا تھا ؟ ماں نے کہا : میں نے اسے کھجور دینے کا ارادہ کیا تھا ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَمَا إِنَّکِ لَوْ لَمْ تُعْطِیْہِ شَیْئًا کُتِبَتْ عَلَیْکَ کِذْبَۃً [4]))
[1] النساء4:65
[2] التغابن64:7
[3] یس36:12
[4] سنن أبی داؤد :4991 ۔ وصححہ الألبانی فی الصحیحۃ :748