کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 203
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمائی : (( لَا طَاعَۃَ لِأَحَدٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ ، إِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِیْ الْمَعْرُوْفِ [1])) ’’ اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں ۔ اطاعت تو صرف نیکی میں ہے ۔ ‘‘ پھر نصیحت کرتے ہوئے حضرت لقمان نے فرمایا : ﴿یَا بُنَیَّ إِنَّہَا إِن تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَکُن فِیْ صَخْرَۃٍ أَوْ فِیْ السَّمَاوَاتِ أَوْ فِی الْأَرْضِ یَأْتِ بِہَا اللّٰہُ إِنَّ اللّٰہَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ﴾[2] ’’ پیارے بیٹے ! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو ، پھر وہ خواہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں ہو اسے اللہ ضرور لائے گا ۔ اللہ تعالیٰ بڑا باریک بین اور خبردار ہے ۔ ‘‘ اس میں حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو خبردار کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چھوٹی بڑی نیکی اور اسی طرح ہر چھوٹی بڑی برائی کو خوب جانتا ہے۔ لہٰذا اولاد کو ہمیشہ نیکیوں کی طرف ترغیب دیتے اور برائیوں سے ڈراتے رہنا چاہئے تاکہ ان کے دل میں نیکی کی محبت اور برائی سے نفرت پیدا ہو۔ اس کے بعد فرمایا : ﴿یَا بُنَیَّ أَقِمِ الصَّلَاۃَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنکَرِ وَاصْبِرْ عَلَی مَا أَصَابَکَ إِنَّ ذَلِکَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ﴾[3] ’’ اے میرے پیارے بیٹے ! تو نماز قام رکھنا ، اچھے کاموں کا حکم دیتے رہنا ، برے کاموں سے منع کرنا اور جو مصیبت تم پر آجائے اس پر صبر کرنا ۔ یہ بڑے تاکیدی کاموں میں سے ہے ۔ ‘‘ اس آیت میں کئی نصیحتیں ہیں ۔ سب سے پہلے اقامتِ نماز کا حکم ہے یعنی ہمیشہ نماز کی پابندی کرنا ۔لہٰذا اولاد کو نماز پڑھنے کا حکم دینا چاہئے ۔ اور ماں باپ پر لازم ہے کہ وہ عملی طور پر بچوں کو طہارت ، وضو اور نماز کا مکمل طریقہ سکھلائیں اور خود بھی نمازوں کی پابندی کیا کریں ورنہ اگر وہ بچوں کو تو نماز پڑھنے کا حکم دیں اور خود نہ پڑھیں تو اس سے بچوں پر بہت برا اثر پڑتا ہے ۔ اور حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مُرُوْا أَوْلَادَکُمْ بِالصَّلاَۃِ وَہُمْ أَبْنَائُ سَبْعِ سِنِیْنَ،وَاضْرِبُوْہُمْ عَلَیْہَا وَہُمْ أَبْنَائُ عَشْرِ سِنِیْنَ [4]))
[1] متفق علیہ [2] لقمان31 :16 [3] لقمان31 :17 [4] أحمد،أبوداؤد ۔ صحیح الجامع للألبانی:5868