کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 196
سلمہ کا ایک شخص آیا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول !
(( ہَلْ بَقِیَ مِنْ بِرِّ أَبَوَیَّ شَیْئٌ أَبَرُّہُمَا بِہٖ بَعْدَ مَوْتِہِمَا ؟))
’’ ماں باپ کی موت کے بعد کیا کوئی نیکی باقی ہے جو میں ان کے ساتھ بجا لاؤں ؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( نَعَمْ،اَلصَّلَاۃُ عَلَیْہِمَا،وَالْاِسْتِغْفَارُ لَہُمَا،وَإِنْفَاذُ عَہْدِہِمَا مِنْ بَعْدِہِمَا ، وَصِلَۃُ الرَّحِمِ الَّتِیْ لَا تُوْصَلُ إِلَّا بِہِمَا،وَإِکْرَامُ صَدِیْقِہِمَا ))
یعنی ’’ ان کی نماز جنازہ پڑھنا۔ ‘‘
’’ ان کیلئے استغفار کرنا ۔‘‘
’’ ان کے بعد ان کے عہد کوجاری رکھنا ۔‘‘ یعنی ان کی وصیت واقرار کو پورا کرنا ۔
’’جو لوگ ماں باپ کے رشتہ کی وجہ سے لائقِ صلہ ہوں (جیسے خالہ ، نانی ، چچا ، دادا ) ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا اور ماں باپ کے دوستوں کی عزت وخاطر داری کرنا ۔ ‘‘[1]
یہ حدیث دلیل ہے اس بات پر کہ یہ سب کام صلۂ والدین وحقوقِ ابوین میں شامل ہیں ۔ اس حدیث کو ابن حبان نے بھی روایت کیا ہے ۔تاہم اس کے آخر میں ان الفاظ کا اضافہ بھی ہے:( قَالَ الرَّجُلُ : مَا أَکْثَرَ ہٰذَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَأَطْیَبَہُ ! قَالَ : فَاعْمَلْ بِہٖ ) [2]
یعنی اس شخص نے کہا:اے اللہ کے رسول!یہ کتنی زیادہ اور کتنی اچھی باتیں ہیں ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اگر اچھی ہیں تو ان پر عمل کیا کر۔‘‘
اورجب حضرت سعد بن عبادۃ رضی اللہ عنہ کی والدہ کا انتقال ہوا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی والدہ کے انتقال کی خبر دی ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کونسا صدقہ سب سے افضل ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پانی کا صدقہ بہترین صدقہ ہے ۔ چنانچہ انھوں نے اپنی ماں کی طرف سے ایک کنواں بنوا دیا اور کہا : (ہٰذِہٖ لِأُمِّ سَعْدٍ ) یعنی یہ ام سعد کیلئے ہے۔[3]
8۔والدین کی نذر کو پورا کرنا
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جہینہ قبیلے کی ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے
[1] سنن أبی داؤد :5142، سنن ابن ماجہ :3664
[2] ابن حبان:162/2:418
[3] سنن أبی داؤد:130/2:1681،وحسنہ الألبانی فی صحیح أبی داؤد،وصحیح الترغیب والترہیب:962