کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 193
نے والدین کے حق میں ان الفاظ کے ساتھ دعا کرنے کا حکم دیا ہے :
﴿ رَبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْرًا﴾[1]
لہٰذا والدین کے حق میں یہ دعا ضرور کرنی چاہئے ۔
اورحضرت ابراہیم ( علیہ السلام ) نے والدین کے حق میں یوں دعا کی :
﴿ رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ ﴾[2]
’’اے ہمارے رب ! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو بھی بخش اور دیگر مومنوں کو بھی بخش جس دن حساب ہونے لگے ۔ ‘‘
لیکن انھوں نے اپنے باپ کیلئے یہ دعا اس وقت تک کی جب تک ان کیلئے یہ بات واضح نہ ہوئی کہ وہ اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے۔پھر اس بات کے واضح ہونے کے بعد انھوں نے اس کے حق میں دعا ترک کردی جیسا کہسورۃ التوبۃ کی آیت نمبر ۱۱۴ میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کیونکہ کافر کے حق میں بخشش کی دعا کرنا درست نہیں۔
اور حضرت نوح علیہ السلام نے یوں دعا کی تھی:
﴿ رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ﴾[3]
’’ اے میرے رب ! مجھے ، میرے والدین اور ہر مومن کو بخش دے جو میرے گھر میں بحالتِ ایمان داخل ہوا اور اسی طرح دیگر تمام مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو بخش دے ۔ ‘‘
اور نیک اولاد وہ ہوتی ہے جو اپنے والدین کی موت کے بعد بھی ان کیلئے دعا کرتی رہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثٍ : صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ أَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہٖ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُوْ لَہُ)) [4]
’’ جب انسان مر جاتا ہے کہ تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے سوائے تین چیزوں کے: صدقہ جاریہ ، علمِ نافع اور صالح اولاد جو اس کیلئے دعا کرتی رہے ۔ ‘‘
اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد صرف تین چیزوں کا ثواب اس کیلئے جاری رہتا
[1] الإسراء17:24
[2] ابراہیم14:41
[3] نوح71:28
[4] مسلم ۔الوصیۃ باب ما یلحق الإنسان من الثواب:1631