کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 188
’’ میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور انھوں نے آکر کہا : اے محمد ! جو آدمی اپنے والدین (دونوں یا ان ) میں سے کسی ایک کو پائے ( پھر ان سے نیکی نہ کرے۔) پھر وہ مر جائے اور جہنم میں چلا جائے تو اللہ تعالیٰ اسے (اپنی رحمت سے ) دور کر دے ۔ آپ کہیں : ( آمین ) تو میں نے کہا : ( آمین ) پھر انھوں نے کہا: اے محمد ! جس شخص نے ماہِ رمضان المبارک پایا پھر وہ اس حالت میں مر گیا کہ اس کی مغفرت نہیں کی گئی اور وہ جہنم میں داخل ہو گیا تو اللہ تعالیٰ اسے بھی (اپنی رحمت سے ) دور کردے ۔آپ کہیں : ( آمین ) تو میں نے کہا : ( آمین ) انھوں نے کہا : اور جس شخص کے پاس آپ کا ذکر کیا گیا اور اس نے آپ پر درود نہیں پڑھا ، پھر اس کی موت آگئی اور وہ جہنم میں چلا گیا تو اللہ تعالیٰ اسے بھی ( اپنی رحمت سے ) دور کردے ۔ آپ کہیں : (آمین ) تو میں نے کہا : (آمین )۔ ‘‘ 4۔ والدین کے نافرمان کا کوئی نیک عمل اس کیلئے فائدہ مندنہیں حضرت عمرو بن مرۃ الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں پانچ نمازیں پڑھوں گا ، اپنے مال کی زکاۃ ادا کرونگا اور رمضان کے روزے رکھوں گا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو انگلیاں اٹھا کر فرمایا : (( مَنْ مَاتَ عَلٰی ہٰذَا کَانَ مَعَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَائِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مَا لَمْ یَعُقَّ وَالِدَیْہِ )) [1] ’’ جس شخص کی موت اسی پر آئے گی وہ قیامت کے روز نبیوں ، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہو گا بشرطیکہ اس نے والدین کی نافرمانی اور ان سے بد سلوکی نہ کی ہو ۔ ‘‘ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بشارت سنائی کہ جو شخص ان اعمال پر مرے گا اسے انبیاء ، صدیقین اور شہداء کا ساتھ نصیب ہو گا اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کے ساتھ مشروط کردیا کہ وہ والدین کی نافرمانی نہ کرے یعنی اگر وہ ان کی نافرمانی اور ان سے بد سلوکی کا ارتکاب کرے گا تو اس کا کوئی نیک عمل اس کیلئے فائدہ مند نہیں ہو گا ۔ اِس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ والدین سے بد سلوکی کرنا کتنا برا عمل ہے کہ اس کی وجہ سے
[1] ابن حبان: 223/8:3438،ابن خزیمہ:340/3:2212،وقال الألبانی: صحیح،صحیح الترغیب والترہیب:2515