کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 186
نے اپنے مزدور سے حسن سلوک کی نیکی پیش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو وہ پتھر تھوڑا سا اور کھسک گیا لیکن اب بھی وہ باہر نہ نکل سکتے تھے ۔ اب تیسرے آدمی نے دعا کی تو اس نے اپنی ایک چچا زاد سے محبت کا ذکر کیا جس میں نوبت یہاں تک جا پہنچی تھی کہ وہ اس سے بد کاری کرنے کے عین قریب پہنچ گیا۔لڑکی نے اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا کہا تو اس نے بد کاری کا ارادہ ترک کر دیا ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اُس پتھر کو غار کے منہ سے مکمل طور پر ہٹا دیا ۔‘‘ [1]
اس قصہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ والدین سے نیکی کرنے والے اور ان کے خدمت گذار انسان کی دعا کو قبول کرتا ہے اور اس کے اِس عمل کی وجہ سے اس کی کئی پریشانیاں ختم کردیتا ہے ۔
والدین کی نافرمانی کرنا اور انھیں اذیت پہنچانا…ایک بھیانک جرم
برادران اسلام ! والدین سے حسن سلوک کرنے کے فضائل کے بعد اب والدین کی نافرمانی کرنے اور انھیں اذیت پہنچانے اور ان سے بدسلوکی کرنے کے خطرناک نتائج بھی سماعت کر لیں:
1۔والدین کی نافرمانی کرنا کبیرہ گناہ ہے
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( أَلَا أُنَبِّئُکُمْ بِأَکْبَرِ الْکَبَائِرِ ؟ ))
’’ کیا میں تمھیں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ ‘‘
ہم نے کہا : کیوں نہیں اے اللہ کے رسول ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی سوال تین بار کیا ۔ اس کے بعد فرمایا :
(( اَلْإِشْرَاکُ بِاللّٰہِ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ ))
’’ اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا اور انھیں اذیت پہنچانا ۔ ‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹے ہوئے تھے ، پھر اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا :
(( أَلَا وَقَوْلَ الزُّوْرِ وَشَہَادَۃَ الزُّوْرِ، أَلَا وَقَوْلَ الزُّوْرِ وَشَہَادَۃَ الزُّوْرِ))
’’ خبردار ! جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی( سے بچنا) ، خبردار ! جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی (سے بچنا )‘‘ … آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح بار بار کہتے رہے حتی کہ ہم ( دل میں ) کہنے لگے : کاش آپ خاموش ہو جاتے ۔[2]
[1] صحیح البخاری،الأدب باب إجابۃ دعاء من بر والدیہ:5974،صحیح مسلم:2743
[2] صحیح البخاری،الأدب باب عقوق الوالدین من الکبائر:5976،مسلم،الإیمان :87