کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 183
(( فَالْزَمْہَا، فَإِنَّ الْجَنَّۃَ عِنْدَ رِجْلِہَا[1])) ’’ ماں کی خدمت میں لگے رہو کیونکہ جنت اس کے قدموں کے پاس ہے۔ ‘‘ جبکہ ایک روایت میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں:قَالَ:أَتَیْتُ النَّبِیَّ صلي اللّٰه عليه وسلم أَسْتَشِیْرُہُ فِیْ الْجِہَادِ، فَقَالَ:أَلَکَ وَالِدَانِ؟قُلْتُ:نَعَمْ،قَالَ: الْزَمْہُمَا فَإنَّ الْجَنَّۃَ تَحْتَ أَرْجُلِہِمَا یعنی حضرت جاہمۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے جہاد کے بارے میں مشورہ طلب کیا ۔ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : کیا تمھارے والدین زندہ ہیں ؟ میں نے کہا : جی ہاں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جاؤ انہی کی خدمت میں لگے رہو کیونکہ جنت ان کے قدموں کے نیچے ہے ۔ ‘‘[2] بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو بد نصیب قرار دیا جو والدین کو بڑھاپے کی حالت میں پا کر بھی جنت میں داخل نہ ہو سکے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( رَغِمَ أَنْفُہُ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُہُ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُہُ)) ’’ اس شخص کی ناک خاک میں ملے ، اس شخص کی ناک خاک میں ملے ،اس شخص کی ناک خاک میں ملے !! ( تین مرتبہ) قِیْلَ : مَنْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ پوچھا گیا : کس کی اے اللہ کے رسول ؟ قَالَ: (( مَنْ أَدْرَکَ وَالِدَیْہِ عِنْدَ الْکِبَرِ أَوْ أَحَدَہُمَا ثُمَّ لَمْ یَدْخُلِ الْجَنَّۃَ[3])) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے ماں باپ دونوں کو یا ان میں سے کسی ایک کو بحالتِ بڑھاپا پایا اور پھر جنت میں داخل نہ ہوا ۔ ‘‘ یعنی ان کی خدمت کرکے یا ان کو راضی رکھ کر جنت کا حقدار نہ بنا۔ اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( دَخَلْتُ الْجَنَّۃَ،فَسَمِعْتُ فِیْہَا قِرَائَ ۃً،فَقُلْتُ:مَنْ ہٰذَا ؟ قَالُوْا :حَارِثَۃُ بْنُ النُّعْمَانِ)) فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم :(( کَذَلِکُمُ الْبِرُّ کَذَلِکُمُ الْبِرُّ )) ، وفی روایۃ لعبد الرزاق ، قَالَ : (( وَکَانَ أَبَرَّ النَّاسِ بِأُمِّہٖ))
[1] سنن النسائی:11/6:3104،ابن ماجہ:2781،الألبانی:حسن صحیح:صحیح الترغیب والترہیب:2485 [2] الطبرانی:289/2 ۔الہیثمی:رجالہ رجال الصحیح:مجمع الزوائد:138/8،الألبانی:حسن صحیح: صحیح الترغیب والترہیب:2485 [3] صحیح مسلم:2551