کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 180
کہ اگر والدین شرک کرنے کا یا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے کا حکم دیں تو ان کی اطاعت نہیں ہو گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( لَا طَاعَۃَ لِأَحَدٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ اللّٰہِ،إِنَّمَا الطَّاعَۃُ فِیْ الْمَعْرُوْفِ)) [1]
’’ اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں ، اطاعت تو صرف نیکی میں ہے ۔ ‘‘
لہٰذا اللہ تعالیٰ کی معصیت میں والدین کی فرمانبرداری تو نہیں ہو گی البتہ دنیا میں ان سے پھر بھی اچھا سلوک رکھنا ہو گا ۔ حتی کہ اگر والدین کافر بھی ہوں تو تب بھی ان سے اچھا برتاؤ کرنا اور ان کی خدمت کرنا ضروری ہے ۔
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ’’ میری ماں‘جو عہدِ قریش ( صلحِ حدیبیہ ) میں مشرکہ تھی میرے پاس آئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میرے پاس میری ماں آئی ہے اور وہ ( کفر میں یا میرے مال میں) رغبت رکھتی ہے۔ تو کیا میں اس کے ساتھ صلہ رحمی کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں اپنی ماں سے صلہ رحمی کر۔ ‘‘[2]
یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ والدین خواہ کافر کیوں نہ ہوں ان سے نیکی کرنی چاہئے ۔
5۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَوَصَّیْْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَیْہِ إِحْسَانًا حَمَلَتْہُ أُمُّہُ کُرْہًا وَّوَضَعَتْہُ کُرْہًا وَحَمْلُہُ وَفِصَالُہُ ثَلَاثُونَ شَہْرًا ﴾[3]
’’ ہم نے انسان کو حکم دیا کہ وہ اپنے والدین سے اچھا سلوک کرے ، اس کی ماں نے مشقت اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور مشقت اٹھا کر ہی جنا ۔ اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس ماہ لگ گئے ۔ ‘‘
یاد رہے کہ اِس آیت اور اس سے پہلی دونوں آیات میں اللہ تعالیٰ نے والدین سے اچھا برتاؤ کرنے کا تاکیدی حکم دینے کے بعد خاص طور پر والدہ کی مشقت کا تذکرہ کیا ہے کہ وہ حمل ، ولادت اور رضاعت کے دوران اولاد کی خاطر کئی تکلیفیں برداشت کرتی ہے ۔ اس لئے خصوصا والدہ سے اچھا برتاؤ کرنا اور بھی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک شخص نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول !
مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِیْ ؟
لوگوں میں حسن صحبت کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟
قَالَ : أُمُّکَ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمھاری ماں۔
[1] متفق علیہ
[2] صحیح البخاری:5978،صحیح مسلم :1003
[3] الأحقاف46:15