کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 178
جبکہ مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ اس کی توجیہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کے ساتھ ہی متصلا والدین سے بہتر سلوک کا ذکر کیوں فرمایا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر چیز کا پروردگار تو رب کائنات ہے ، جس نے زمین بنائی۔ ہوا ،پانی ، سورج ، چاند وغیرہ پیدا کئے ، پھر بارش برسائی اور پھر انسان کی ساری ضروریاتِ زندگی زمین سے وابستہ کردیں … پھر اس کے بعد انسان کی پرورش کا ظاہری سبب اس کے والدین کو بنایا اور یہ تو ظاہر ہے کہ جس قدر مشکل سے انسان کا بچہ پلتا ہے کسی جانور کا بچہ اتنی مشکل سے نہیں پلتا … ماں راتوں کو جاگ جاگ کر اور بچے کے آرام پر اپنا آرام قربان کر تی ہے اور باپ ‘ بچہ اور اس کی ماں دونوں کے اخراجات برداشت کرتا ہے ۔ پھر اس کی تربیت میں پورا تعاون کرتا ہے ۔ تب جا کر انسان کا بچہ بڑا ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے والدین کے دل میں اپنی اولاد کیلئے بے پناہ محبت اور ایثار کا جذبہ نہ رکھ دیا ہوتا تو انسان کے بچہ کی کبھی تربیت نہ ہو سکتی ۔ اب اگر انسان اپنے والدین کو بڑھاپے کی حالت میں بے یارو مدد گار چھوڑ دے اور ان کی طرف توجہ نہ کرے یا ان سے گستاخی سے پیش آئے تو اس سے زیادہ بے انصافی اور ظلم اور کیا ہو سکتا ہے !! ‘‘[1]
دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ نے والدین سے حسن سلوک کرنے کا حکم دینے کے بعد فرمایا ہے کہ وہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک جب بڑھاپے کو پہنچ جائے تو تم نے ان کے حق میں پانچ باتوں کی پابندی کرنی ہے اور وہ یہ ہیں:
1۔پہلی یہ کہ تم نے انھیں اف تک نہیں کہنا اور ( اف ) سے مراد ہر تکلیف دہ اور ناگوار قول وفعل ہے جس سے والدین کو ذہنی یا روحانی اذیت پہنچے ۔ لہٰذا اولاد پر لازم ہے کہ وہ والدین سے نرمی اور اچھے انداز سے بات کرے اور انھیں کوئی بری بات نہ سنائے حتی کہ اف تک نہ کہے کیونکہ یہ بھی ہلکے درجے کی گستاخی ہے اور جب ہلکے درجے کی گستاخی جائز نہیں تو اس سے بڑی گستاخی بھی حرام ہے ۔
2۔ دوسری یہ کہ تم نے انھیں جھڑکنا بھی نہیں اور یہ اس لئے کہ والدین کا مزاج بڑھاپے کی وجہ سے عام طور پر چڑچڑا سا ہو جاتا ہے اور ان کی کسی بات پر اولاد کو غصہ بھی آسکتا ہے ۔ تو اولاد کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ والدین کی باتیں برداشت کرے اور ان کے سامنے الٹی سیدھی باتیں نہ کرے اور انھیں نہ جھڑکے اور نہ ہی ڈانٹ ڈپٹ کرے ۔
3۔ تیسری یہ کہ والدین سے بات کرو تو ادب واحترام کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے بات کرو ۔
4۔چوتھی یہ کہ والدین پر رحم اور ترس کرتے ہوئے ان کے سامنے عاجزی وانکساری کے ساتھ جھک کر رہو ۔
[1] تیسیر القرآن :577/2