کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 174
دوسرا خطبہ
برادران اسلام ! جیسا کہ پہلے خطبے میں آپ نے سماعت فرمایا کہ خاوند کے بیوی پر کونسے حقوق ہیں اور بیوی کے شوہر پر کونسے حقوق ہیں ۔ بیوی کے حقوق میں سے ایک حق باقی ہے جسے اس خطبے میں ذکر کرتے ہیں ۔
4۔ حق خلع
شوہر پر بیوی کا چوتھا حق یہ ہے کہ اگر کسی شرعی عذر کی بناء پر بیوی خاوند کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو وہ پورا حق مہر یا اس کا کچھ حصہ خاوند کو واپس کرکے اس سے طلاق لے سکتی ہے ۔ ’’ شرعی عذر ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ مثلا خاوند حقوق زوجیت ادا کرنے کے قابل نہ ہو یا خاوند بلا عذر بیوی کو تنگ کرتا ہو اور اس نے اس کا جینا حرام کردیا ہو یا خاوند بیوی کے درمیان ناچاقی ہونے کے بعد صلح کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہوں اور خاوند نہ تو اسے اپنے ساتھ رکھنے پر تیار ہو اور نہ ہی اسے طلاق دینے پر آمادہ ہو ۔ تو اس طرح کے شرعی عذر کی موجودگی میں بیوی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ خاوندد سے لیا ہوا حق مہر ( پورا یا کچھ حصہ ‘جتنے پر اتفاق ہو) واپس کردے اور اس سے طلاق لے لے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ یُقِیْمَا حُدُودَ اللّٰہِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہِ﴾[1]
’’ ہاں اگر تمہیں اس بات کا خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی حدود کی پابندی نہ کر سکیں گے تو پھر عورت اگر کچھ دے دلا کر اپنی گلو خلاصی کرا لے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں ۔‘‘
اور اس سلسلے میں حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کا قصہ بہت معروف ہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور انھوں نے اپنے خاوند کی شکایت کی ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس کا باغ اسے واپس کردو گی؟ انھوں نے کہا : جی ہاں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت رضی اللہ عنہ کو فرمایا : اپنا باغ واپس لے لو اور اسے طلاق دے دو ۔ ‘‘[2]
لیکن عورت کو یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اسے حقِ خلع تو حاصل ہے مگر تب جبکہ شرعی عذر موجود ہو اور رہا بغیر شرعی عذر کے طلاق کا مطالبہ کرنا تو یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔
[1] البقرۃ2 229
[2] صحیح البخاری،الطلاق باب الخلع:5273