کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 173
اور اگر بیوی خاوند کی نافرمانی کرتی ہو یا بد خلقی سے پیش آتی ہو یا ہٹ دھرمی دکھاتی ہو تو اس کے بارے میں خاوند کو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اپنے سامنے رکھنا چاہئے : ﴿وَاللَّاتِیْ تَخَافُونَ نُشُوزَہُنَّ فَعِظُوہُنَّ وَاہْجُرُوہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوہُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُواْ عَلَیْہِنَّ سَبِیْلًا ﴾ [1] ’’ اور جن بیویوں سے تمھیں سرکشی کا اندیشہ ہو انھیں سمجھاؤ ۔ ( اگر نہ سمجھیں ) تو خواب گاہوں میں ان سے الگ رہو ۔ ( پھر بھی نہ سمجھیں ) تو انھیں مارو ۔ پھر اگر وہ تمھاری بات قبول کر لیں تو خواہ مخواہ ان پر زیادتی کے بہانے تلاش نہ کرو ۔ ‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نافرمان یا سرکش بیوی کے متعلق تین ترتیب وار اقدامات تجویز کئے ہیں ۔ پہلا یہ کہ اسے نصیحت اور خیر خواہی کے انداز میں سمجھاؤ ۔ اگر وہ سمجھ جائے تو ٹھیک ہے ورنہ دوسرا اقدام یہ ہے کہ اس کا اور اپنا بستر الگ الگ کردو ۔ اگر اس میں ذرا برابر بھی عقل ہو گی تو وہ یقینا راہ راست پر آجائے گی لیکن اگر وہ اس کے باوجود بھی نہ سمجھے تو آخری حربہ یہ ہے کہ اسے مارو … لہٰذا مار آخری حربہ ہے نہ کہ پہلا جیسا کہ آج کل بہت سارے لوگ پہلے دونوں اقدامات کو چھوڑ کر آخری حربہ سب سے پہلے استعمال کرتے ہیں ۔اور یہ بات بھی یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مار کو اس بات سے مشروط کر دیا ہے کہ اس سے اسے چوٹ نہ آئے اور نہ ہی اس کی ہڈی پسلی ٹوٹے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( لَا یَجْلِدْ أَحَدُکُمُ امْرَأَتَہُ جَلْدَ الْعَبْدِ ثُمَّ یُجَامِعُہَا فِیْ آخِرِ الْیَوْمِ [2])) ’’ تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کو یوں نہ مارے جیسے وہ اپنے غلام کو مارتا ہے ، پھر وہ دن کے آخر میں اس سے ہمبستری بھی کرے ۔ ‘‘ اور دووسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( ۔۔۔ فَإِنْ فَعَلْنَ فَاہْجُرُوْہُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ ،وَاضْرِبُوْہُنَّ ضَرْبًا غَیْرَ مُبَرِّحٍ[3])) ’’ اگر وہ ( بے حیائی ) کریں تو تم اپنے اور ان کے بستر الگ الگ کردو اور اس طرح مارو کہ انھیں چوٹ نہ آئے ۔ ‘‘
[1] النساء4 :34 [2] صحیح البخاری،النکاح باب ما یکرہ من ضرب النساء:5204،صحیح مسلم: الجنۃ باب النار یدخلہا الجبارون :2855 [3] سنن الترمذی،الرضاع باب فی حق المرأۃ علی زوجہا