کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 169
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار اوقیہ چاندی پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حق مہر بڑھا چڑھا کر مقرر کرنا شریعت میں مرغوب نہیں ہے ۔ اسی لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا : ’’ تم عورتوں کے حق مہر بڑھا چڑھا کر مقرر نہ کیا کرو کیونکہ زیادہ حق مہر دینا اگر دنیا میں عزت وتکریم کا باعث ہوتایااللہ کے ہاں یہ تقوی کی بات ہوتی تو اسکے زیادہ حقدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی بیوی یا اپنی کسی بیٹی کیلئے بارہ اوقیہ چاندی سے زیادہ حق مہر مقررنہیں کیا۔ ‘‘[1] 2۔ نان ونفقہ خاوند پر بیوی کا دوسرا حق یہ ہے کہ وہ اسے اپنی طاقت اور عرفِ عام کے مطابق نان ونفقہ اور رہائش مہیا کرے اور اس کے جائز اخراجات کو پورا کرے ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبۂ حجۃ الوداع میں ارشاد فرمایا تھا : (( وَلَہُنَّ عَلَیْکُمْ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ)) [2] ’’ اور عورتوں کا تم پر حق ہے کہ تم انھیں عرفِ عام کے مطابق خوراک اور پوشاک مہیا کرو ۔ ‘‘ اور حضرت معاویہ القشیری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ بیوی کا خاوند پر کیا حق ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَنْ تُطْعِمَہَا إِذَا طَعِمْتَ،وَتَکْسُوَہَا إِذَا اکْتَسَیْتَ،وَلَا تَضْرِبِ الْوَجْہَ وَلَا تُقَبِّحْ ،وَلَا تَہْجُرْ إِلَّا فِیْ الْبَیْتِ[3])) ’’ اس کا حق یہ ہے کہ جب تم خود کھاؤ تو اس کو بھی کھلاؤ اور جب تم خود پہنو تو اس کو بھی پہناؤ اور منہ پر نہ مارو اور گالی گلوچ نہ کرو اور اگر اسے چھوڑنا چاہو تو گھر ہی میں چھوڑو ۔ ‘‘ ان احادیث ِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ بیوی کا نان ونفقہ اور لباس وغیرہ خاوند کے ذمے ہے اور خاوند کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ وہ جو کچھ اپنے اہل وعیال پر خرچ کرے گا اگر اس میں وہ اپنی نیت درست کر لے اور اللہ
[1] سنن ابن ماجہ :1887،صححہ الألبانی فی صحیح سنن ابن ماجہ :1532 [2] صحیح مسلم:1218 [3] أحمد:447/4، سنن أبی داؤد،النکاح باب فی حق المرأۃ علی زوجہا:2142،سنن ابن ماجہ،النکاح باب حق المرأۃ علی الزوج:1850،صحیح الترغیب والترہیب للألبانی:1929