کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 167
جب اس شخص کو لوہے کی انگوٹھی بھی نہ ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا :کیا تمھیں قرآن کی کچھ سورتیں یاد ہیں ؟ اس نے کہا:ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جاؤ اسے یہ سورتیں ہی سکھلا دینا،میں نے اسی کے عوض تمھاری اس سے شادی کردی ہے ۔[1]
اس سے یہ ثابت ہوا کہ اگر کوئی شخص زیادہ حق مہر ادا نہ کر سکتا ہو تو وہ کم قیمت والی چیز کے عوض شادی کر سکتا ہے کیونکہ لوہے کی انگوٹھی بظاہر اتنی قیمت والی نہیں ہو سکتی ۔
اسی طرح جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اسے کچھ نہ کچھ دو ۔‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے ۔ تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : تمھاری وہ حطمی زرہ کہاں ہے ؟ انھوں نے جواب دیا : وہ میرے پاس ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’وہی اس کو دے دو ۔ ‘‘[2]
یہ تھاحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حق مہرجو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں اور جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (( سَیِّدَۃُ نِسَائِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ )) ہونے کی بشارت دی ۔اس سے ثابت ہوا کہ کم حق مہر پر شادی کی جا سکتی ہے ۔
2۔ کم حق مہر ہی مستحب ہے
شریعت میں اگر چہ حق مہر کی مقدار متعین نہیں کی گئی لیکن اس بات کی طرف ترغیب ضرور دلائی گئی ہے کہ حق مہر کم ہو اور اتنا ہو جتنا آسانی سے ادا کیا جا سکے۔
اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( خَیْرُ النِّکَاحِ أَیْسَرُہُ )) [3]
’’ بہترین نکاح وہ ہے جو بآسانی ہو جائے ۔ ‘‘
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(( خَیْرُ الصَّدَاقِ أَیْسَرُہُ[4]))
’’ بہترین حق مہر وہ ہے جو بآسانی ادا کیا جاسکے ۔ ‘‘
اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو بہت زیادہ حق مہر نہیں دیا تھا ۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو کتنا حق مہر دیا
[1] صحیح البخاری :5030،5120، صحیح مسلم :1425
[2] سنن أبی داؤد:2125،سنن النسائی:3375،وصححہ الألبانی فی صحیح سنن النسائی:3160
[3] ابن حبان ۔ صحیح الجامع للألبانی :3300
[4] الحاکم والبیہقی ۔ صحیح الجامع للألبانی :3279