کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 166
حَقَّہَا ، خَدَعَہَا ، فَمَاتَ وَلَمْ یُؤَدِّ إِلَیْہَا حَقَّہَا لَقِیَ اللّٰہَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَہُوَ زَانٍ)) [1] ’’جو شخص کم یا زیادہ حق مہر پر کسی عورت سے شادی کرے اور اس کے دل میں اس کا حق اسے ادا کرنے کا خیال ہی نہ ہو تو وہ اس سے دھو کہ کرتا ہے ۔ پھر اس حال میں اس کی موت آ جائے کہ ابھی اس نے اس کا حق ادا نہیں کیا تھا تو قیامت کے دن وہ اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملے گا کہ وہ زانی ( بد کار ) ہو گا ۔‘‘ حق مہر کے سلسلے میں ظلم وزیادتی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ شوہر کی جانب سے اگر بیوی کو اس کا حق مہر اداکر دیا جائے تو بعض اوقات اس کا والد اس پر قبضہ کر لیتا ہے حالانکہ حق مہر تو خالصتا بیوی کا ہی حق ہوتا ہے جو اسے ہی ملنا چاہئے ۔ ہاں اگر عورت اپنی خوشی سے مہر کا کچھ حصہ اپنے والد کو دے دے تو وہ اس کیلئے حلال ہے ۔ حق مہر کے متعلق چند ضروری مسائل 1۔ شریعت میں حق مہر کی مقدار متعین نہیں کی گئی اور اسے نکاح کرنے والے کی مالی حیثیت پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ اس لئے ہر شخص اپنی طاقت کے مطابق ہی حق مہر دینے کا پابند ہے اور اسے اتنا حق مہر ہی طے کرناچاہئے جتنا وہ بآسانی دے سکتا ہو ۔ لیکن اس دور میں کئی لوگ بوقت ِ نکاح توبڑھا چڑھا کرحق مہر مقرر کر دیتے ہیں مگر اس کے بعد یا تو حالات کی مجبوری کے باعث ادا نہیں کر سکتے ، یا پھر جان بوجھ کر پورا حق مہر ہی کھا جاتے ہیں ، یا اس کا کچھ حصہ تو ادا کردیتے ہیں اور باقی ہضم کر جاتے ہیں ، یا پھر عورت پر دباؤ ڈال کر یا اسے بہلا کر پورا حق مہر یا اس کا کچھ حصہ اس سے معاف کروا لیتے ہیں۔ تو اس ظلم وزیادتی تک نوبت ہی کیوں آئے اگر شروع ہی سے اپنی حیثیت کے مطابق حق مہر مقرر کردیا جائے جو بآسانی ادا کیا جا سکے تو کیا وہ بہتر نہیں ؟ اور جب اللہ تعالیٰ نے اور اسی طرح اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حق مہر کی مقدار متعین نہیں فرمائی تو ہم خواہ مخواہ اپنے آپ کو مشقت میں کیوں ڈالیں اور اپنے نامۂ اعمال میں کیوں گناہ لکھوائیں ؟ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿ لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا إِلاَّ وُسْعَہَا﴾[2] ’’ اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ ‘‘ بلکہ یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ اگر انسان کی مالی حیثیت کمزور ہو تو وہ کم حق مہر پر شادی کر سکتا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شادی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا ‘ اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ (( اِلْتَمِسْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِیْدٍ)) ’’جاؤ ایک لوہے کی انگوٹھی ہی ڈھونڈ لاؤ ۔‘‘ پھر
[1] صحیح الترغیب والترہیب للألبانی:1807 [2] البقرۃ2 :286