کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 165
نے فرمایا: (( حَقُّ الزَّوْجِ عَلٰی زَوْجَتِہٖ لَوْ کَانَتْ بِہٖ قُرْحَۃٌ فَلَحَسَتْہَا أَوِ انْتَثَرَ مِنْخَرَاہُ صَدِیْدًا أَوْ دَمًا ثُمَّ ابْتَلَعَتْہُ مَا أَدَّتْ حَقَّہُ )) [1]
’’بیوی پر شوہر کا حق اتنا بڑا ہے کہ اگر اس پر کوئی زخم ہو اور وہ اسے چاٹ لے ، یا اس کے نتھنوں سے پیپ یا خون بہہ نکلے اور وہ اسے نگل لے تو تب بھی وہ اس کا حق ادا نہیں کر سکتی ۔ ‘‘
اس لڑکی نے کہا : اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ! تب تو میں کبھی شادی نہیں کرونگی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ لڑکیوں کی شادی ان کی اجازت کے بغیر نہ کیا کرو‘‘
ان تینوں احادیث کو سامنے رکھ کر آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ شریعت میں خاوند کے حقوق کو کتنا اہم قرار دیا گیا ہے اور بیوی کو ان کے ادا کرنے کی کتنی سخت تاکید کی گئی ہے !
خاوند پر بیوی کے حقوق
بیوی پر خاوند کے حقوق تو آپ نے معلوم کرلئے ۔ آئیے اب خاوند پر بیوی کے حقوق بھی جان لیجئے :
1۔حق مہر
خاوند پر بیوی کا پہلا حق یہ ہے کہ وہ اسے حق مہر ادا کرے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿ وَآتُوا النِّسَائَ صَدُقَاتِہِنَّ نِحْلَۃً فَإِن طِبْنَ لَکُمْ عَن شَیْئٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوہُ ہَنِیْئًا مَّرِیْئًا﴾ [2]
’’ اور عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی دے دو ۔ ہاں اگر وہ خود اپنی خوشی سے کچھ مہر چھوڑ دیں تو اسے شوق سے خوش ہو کر کھاؤ ۔ ‘‘
اس آیت میں عورتوں کا مہر انھیں ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ لہٰذا شوہروں پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنی بیویوں کو ان کا حق مہر ادا کریں ۔ ہاں اگر کوئی عورت خود اپنی مرضی سے کچھ مہر معاف کردے تو وہ مرد کیلئے حلال ہے لیکن سرے سے اس کو اس کا حق ادا کرنے سے انکار کردینا ، یا زبردستی اس سے حق مہر معاف کروا لینا بہت بڑا جرم ہے اور عورت پر ظلم وزیادتی ہے ۔ اِس کی سنگینی کا اندازہ آپ اس حدیث سے کر سکتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( أَیُّمَا رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً عَلٰی مَا قَلَّ مِنَ الْمَہْرِ أَوْ کَثُرَ ، لَیْسَ فِیْ نَفْسِہٖ أَنْ یُّؤَدِّیَ إِلَیْہَا
[1] صحیح الترغیب والترہیب للألبانی:1934
[2] النساء4 :4