کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 155
’’ ہر وہ شرط جو کتاب اللہ میں نہیں وہ باطل ہے ۔ ‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :(( لَا تَسْأَلِ الْمَرْأَۃُ طَلاَقَ أُخْتِہَا لِتَکْتَفِیئَ صَحْفَتَہَا، وَلْتَنْکِحْ فَإِنَّمَا لَہَا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَہَا)) [1]
’’ کوئی عورت اپنی بہن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے تاکہ وہ اس کا رزق اپنے لئے حاصل کر لے بلکہ وہ (بلا شرط ) نکاح کر لے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کیلئے جو کچھ لکھ رکھا ہے وہ اسے ضرور ملے گا ۔ ‘‘
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام مبشر بنت البراء بن معرور کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا تو انھوں نے کہا : میرے خاوند نے شرط لگائی تھی کہ میں اس کے بعد کسی سے شادی نہیں کرونگی ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ شرط درست نہیں ہے ۔[2]
ان تمام احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ناجائز شرائط کی شرعا کوئی حیثیت نہیں ۔ ہاں اگر جائز شرائط ہوں تو ان کا پورا کرنا خاوند بیوی دونوں کیلئے ضروری ہے ۔
2۔ایک دوسرے سے لطف اندوز ہونا
اللہ تعالیٰ نے مرد وعورت دونوں کی فطرت میں شہوانی جذبات ودیعت کئے ہیں جن کی بناء پر دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہیں اور نکاح کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ ہے کہ وہ دونوں جائز طریقے سے ان جذبات کی تکمیل کر سکیں ۔ تو ایک دوسرے کی جنسی خواہش کو پورا کرنا خاوند بیوی دونوں کا مشترکہ حق ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( إِذَا دَعَا الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ إِلٰی فِرَاشِہٖ فَأَبَتْ فَبَاتَ غَضْبَانَ عَلَیْہَا،لَعَنَتْہَا الْمَلاَئِکَۃُ حَتّٰی تُصْبِحَ)) [3]
’’جب ایک خاوند اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کردے ، پھر وہ اس پر ناراضگی کی حالت میں رات گذار دے تو فرشتے صبح ہونے تک اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں ۔ ‘‘
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( إِذَا دَعَا الرَّجُلُ زَوْجَتَہُ لِحَاجَتِہٖ،فَلْتَأْتِہٖ وَإِنْ کَانَتْ عَلَی التَّنُّوْرِ [4]))
[1] قال الحافظ فی الفتح: 125/9: أخرجہ الطبرانی فی الصغیر بإسناد حسن
[2] صحیح البخاری ۔ بدء الخلق باب ذکر الملائکۃ:3237،صحیح مسلم،النکاح: 1736
[3] سنن الترمذی،والنسائی ۔ صحیح الترغیب والترہیب للألبانی :1946
[4] البخاری،الصوم،باب من أقسم علی أخیہ … : 1968