کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 15
اس لئے ہم گھبراکر آپ کی تلاش کے لئے نکل کھڑے ہوئے اور میں سب سے پہلے آپ کی تلاش میں نکلا تھا ، دوسرے لوگ بھی میرے پیچھے ہیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا جوتا مجھے عنایت کیا اور فرمایا : (( اِذْہَبْ بِنَعْلَیَّ ہَاتَیْنِ فَمَنْ لَقِیْتَ مِنْ وَّرَائِ ہَذَا الْحَائِطِ یَشْہَدُ أَنْ لَّا إلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ مُسْتَیْقِنًا بِہَا قَلْبُہُ ، فَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّۃِ)) ’’ میرے یہ دونوں جوتے لے جاؤ اورتمھیں باغ کے اُس پار جو شخص بھی ایسا ملے کہ وہ دل کے یقین کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اﷲ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں تو اسے جنت کی بشارت دے دو ۔‘‘ چنانچہ مجھے سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ملے ۔ میں نے کہا : ’’ یہ اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جوتا ہے ، آپ نے یہ مجھے ( بطور نشانی ) عنایت کیا ہے اور فرمایا ہے کہ مجھے جو شخص بھی ایسا ملے کہ وہ دل سے اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اﷲ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں تو میں اسے جنت کی بشارت دوں ۔ ‘‘ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے میرے سینے پر اپنا ہاتھ مارا جس سے میں چت گرگیا اور انھوں نے کہا : ابوہریرہ ! جاؤ واپس پلٹ جاؤ ۔ چنانچہ میں واپس رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس حالت میں لوٹا کہ میں شدید رورہا تھا ۔ میرے پیچھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی آگئے تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ابوہریرہ! تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ میں نے سارا واقعہ آپ کو سنادیا۔ پھر رسول ا ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا : تم نے ایسا کیوں کیا ؟ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اﷲ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔ کیا واقعتًا آپ نے اپنا جوتا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو دے کر یہ بشارت سنانے کا حکم دیا تھا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : آپ ایسا نہ کریں کیونکہ مجھے اس بات کا اندیشہ ہے کہ لوگ اسی پر بھروسہ کرکے عمل کرنا چھوڑ دیں گے ۔ لہٰذا آپ انہیں عمل کرنے دیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ٹھیک ہے انہیں عمل کرنے دو۔‘‘[1] اس حدیث میں دل سے ’’ لا إلٰہ إلا ا للّٰه ‘ ‘ کی گواہی دینے والے اور توحیدِ الٰہی کا اقرار کرنے والے شخص کے لئے جنت کی بشارت ہے ۔ 2۔ توحید پرست پر جہنم حرام ہے ابو عبد اﷲ عبد الرحمن بن عسیلۃ الصنابحی کا بیان ہے کہ جب حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ کی موت کا وقت قریب تھا تو میں ان کے پاس گیا اور ان کی حالت دیکھ کر مجھے بے ساختہ رونا آگیا ۔ اس پر انھوں نے کہا :
[1] صحیح مسلم :31