کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 148
نہیں کی جائے گی تو بد کاری نہیں ہوگی تو اورکیا ہوگا ؟ والعیاذ باللہ ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس نکاح کا پیغام بھیجا تو حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا : اللہ کی قسم ! آپ جیسے انسان کو رد تو نہیں کیا جا سکتا لیکن بات یہ ہے کہ آپ کافر ہیں اور میں مسلمان اور میرے لئے حلال نہیں کہ میں آپ سے شادی کروں ۔ اگر آپ اسلام قبول کرلیں تو یہی میرا حق مہر ہو گا۔چنانچہ انھوں نے اسلام قبول کر لیا اور ان کا اسلام قبول کرنا ہی حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کا حق مہر بنا ۔[1] تو یہ تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت یافتہ خاتون جس نے دنیا کو کوئی حیثیت نہیں دی اور حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کو ہی اپنا حق مہر تسلیم کر لیا ۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکی کے انتخاب کیلئے جو معیار مقرر فرمایا ہے وہ یہ ہے : (( تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ لِأَرْبَعٍ:لِمَالِہَا،وَلِحَسَبِہَا،وَلِجَمَالِہَا،وَلِدِیْنِہَا،فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّیْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ )) [2] ’’ عورت سے نکاح چار اسباب کی بناء پر کیا جاتا ہے : اس کے مال کی وجہ سے ، اس کے حسب ونسب کی وجہ سے ، اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کی دینداری کی وجہ سے ۔ لہٰذا تم تمھارے ہاتھ خاک آلود ہوں دیندار لڑکی سے ہی نکاح کرنا۔ ‘‘ بیوی اور بہو کے انتخاب کیلئے بھی دینداری کو ہی معیار مقرر کیا گیا ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیندار اور نیک بیوی کو بہترین خزانہ قرار دیا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِخَیْرِ مَا یُکْنَزُ؟ اَلْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ،إِذَا نَظَرَ إِلَیْہَا سَرَّتْہُ،وَإِذَا غَابَ عَنْہَا حَفِظَتْہُ،وَإِذَا أَمَرَہَا أَطَاعَتْہُ )) [3] ’’ کیا میں تمھیں بہترین خزانے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ ہے نیک بیوی ۔ جب اس کا خاوند اس کی طرف دیکھے تو وہ اسے خوش کردے اور جب وہ گھر میں موجود نہ ہو تو وہ اس کی (عزت کی ) حفاظت کرے اور جب وہ اسے کوئی حکم دے تو وہ فرمانبرداری کرے ۔ ‘‘
[1] قال الحافظ فی الفتح:18/9: أخرجہ النسائی بسند صحیح [2] متفق علیہ [3] سنن أبی داؤد: 1664