کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 147
شہوت ناجائز طریقے سے پوری کرے تو کیا اس پر اسے گناہ ہو گا ؟ اسی طرح اگر وہ جائز طریقے سے پورا کرے تو اس پر اسے اجر ملتا ہے ۔‘‘
نکاح اور شادی کے ان عظیم فوائد کے پیش ِ نظر شادی میں تاخیر کرنا درست نہیں ہے ۔ اس لئے سرپرستوں کو اپنی جوان اولاد کی شادی کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس دور میں بہت سارے سرپرست حضرات اپنے جوان بیٹوں اور بیٹیوں کی شادی میں بہت تاخیرکردیتے ہیں اور وہ اپنی بہو یا اپنے داماد کے اختیار میں محض دنیاوی اعتبار سے سوچتے ہیں۔ ان کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ کوئی مالدار آدمی مل جائے جو ان کی بیٹی کو بہت زیادہ حق مہر ادا کرے یا دولتمند گھرانے کی لڑکی مل جائے جو بیٹے کے گھر میں بہت زیادہ جہیز لے کر آئے اور یہ سوچ انتہائی غلط ہے ۔ ہماری شریعت میں ایسی سوچ وفکرکی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور اس کے برعکس اس بات کی ترغیب دی گئی ہے کہ اگر دیندار اور باکردار لڑکا ملتا ہو تو اسے اپنی لڑکی بیاہ دینی چاہئے خواہ وہ غریب کیوں نہ ہو اور اسی طرح اگر دیندار لڑکی ملتی ہو تو اسے اپنے لڑکے کیلئے اس کے والدین یا سرپرست سے طلب کر لینا چاہئے اور پھر اسی سے اس کی شادی کر دینی چاہئے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( إِذَا أَتَاکُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ خُلُقَہُ وَ دِیْنَہُ فَزَوِّجُوْہُ،إِلَّا تَفْعَلُوْا تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِیْ الْأَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِیْضٌ)) [1]
’’ جب تمھارے پاس وہ شخص ( شادی کا پیغام لے کر ) آئے جس کا کردار اور اس کی دینی حالت تم کو پسند ہو تو اس سے اپنی لڑکی کی شادی کر دو ۔ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت زیادہ فساد برپا ہو جائے گا۔‘‘
اس حدیث میں ذر اغورفرمائیں ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکی کے نکاح کیلئے لڑکے کا معیار مقرر کردیا ہے اور وہ ہے اس کا کردار اور اس کی دینی حالت ، لیکن افسوس بصد افسوس آج یہ معیار بالکل بدل چکا ہے ، کردار اور دینداری کی بجائے صرف دنیا کو معیار بنا لیا گیا ہے اور اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے مطابق زمین پر فتنہ اور فساد برپا ہو چکا ہے ۔ لڑکیاں اپنے والدین کے ہاں بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہو جاتی ہیں ، ان کے والدین مالدار لڑکوں اور بڑے حق مہر کے انتظار میں انھیں بوڑھی کردیتے ہیں اور لڑکوں والے انھیں اس لئے قبول نہیں کرتے کہ وہ غریب ہوتی ہیں اور اسی لئے آئے دن بدکاری کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں کیونکہ جب نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی
[1] صحیح الجامع للألبانی:270: السلسلۃ الصحیحۃ :1022