کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 145
(( تَزَوَّجُوْا الْوَدُوْدَ الْوَلُوْدَ ، فَإِنِّیْ مُکَاثِرٌ بِکُمُ الْأُمَمَ [1]))
’’ تم خاوند سے محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو کیونکہ میں تمھارے ذریعے دوسری امتوں پر اپنی امت کی کثرت ثابت کرنے والا ہوں ۔ ‘‘
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نکاح کرنے والے مرد وعورت کے مد نظر ایک مقصد یہ بھی ہو کہ وہ بچے پیدا کریں گے اور اس امت کی تعداد میں اضافہ کریں گے ۔ یہ مقصد اس اعتبار سے انتہائی عظیم مقصد ہے کہ والدین اپنی موت کے وقت اگر اپنے پیچھے نیک اولاد چھوڑیں گے تو ان کا اجر وثواب ان کی موت کے بعد بھی جاری وساری رہے گا ۔ جیسا کہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صحیح حدیث سے ثابت ہے ۔
گویا شادی کے فوائد میں سے ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ اس سے نسلِ انسانی کی بقاء ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ امت ِ محمدیہ کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے اور اگر اولاد نیک ہو تو والدین کا اجرو ثواب ان کی موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے اور اگر اولاد میں سے دو تین بچے بالغ ہونے سے پہلے فوت ہو جائیں اور والدین اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر رضا کا اظہار کریں اور صبر وتحمل کا دامن تھامے رکھیں تو اللہ تعالیٰ انھیں اپنے فضل وکرم سے جنت میں داخل کر دیتا ہے ۔ جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( مَا مِنَ النَّاسِ مِنْ مُّسْلِمٍ یُتَوَفّٰی لَہُ ثَلَاثٌ لَمْ یَبْلُغُوْا الْحِنْثَ أَدْخَلَہُ اللّٰہُ الْجَنَّۃَ بِفَضْلِ رَحْمَتِہٖ إِیَّاہُمْ )) [2]
’’ جس مسلمان آدمی کے تین بچے بلوغت سے پہلے فوت ہو جائیں اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمت کے فضل سے اسے جنت میں داخل کر دیتا ہے ۔ ‘‘
اور دوسری روایت میں ارشاد فرمایا :
(( أَیُّمَا امْرَأَۃٍ مَاتَ لَہَا ثَلَاثَۃٌ مِنَ الْوَلَدِ کَانُوْا لَہَا حِجَابًا مِنَ النَّارِ)) قَالَتِ امْرَأَۃٌ : وَاثْنَانِ ؟ قَالَ : (( وَاثْنَانِ )) [3]
’’ جس خاتون کے تین بچے فوت ہو جائیں وہ اس کیلئے جہنم کی آگ سے پردہ بن جائیں گے ۔ ‘‘
ایک عورت نے کہا : اور دو بھی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اور دو بھی ۔ ‘‘
خلاصہ یہ ہے کہ اولاد اگر والدین کی زندگی میں فوت ہو جائے تو وہ بھی ان کیلئے باعث ِ خیر وبرکت اور اگر
[1] سنن أبی داؤد،النکاح باب النہی عن تزویج من لم یلد من النساء:2050،سنن النسائی ،النکاح باب کراہیۃ تزویج العقیم،ابن حبان:4056،صحیح سنن أبی داؤد للألبانی: 1805
[2] صحیح البخاری :1248،1381
[3] صحیح البخاری:1249،صحیح مسلم :2633