کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 143
(( أَنْتُمُ الَّذِیْنَ قُلْتُمْ کَذَا وَکَذَا ! أَمَا وَاللّٰہِ إِنِّیْ لَأَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَأَتْقَاکُمْ لَہُ ، لٰکِنِّیْ أَصُوْمُ وَأُفْطِرُ،وَأُصَلِّیْ وَأَرْقُدُ،وَأَتَزَوَّجُ النِّسَائَ،فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ )) [1]
’’ کیا وہ تم ہو جنھوں نے یہ یہ باتیں کی ہیں ؟ تمھیں معلوم ہوناچاہئے کہ میں تم سب کی نسبت زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور زیادہ متقی ہوں اور اس کے باوجود میں کبھی روزہ رکھتا ہوں اور کبھی نہیں رکھتا اورمیں رات کو قیام بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں ۔ تو جو شخص میری سنت سے اعراض کرے گااس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ۔‘‘
نکاح نصف دین ہے
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو آدھا دین قرار دیا ہے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ نِصْفَ الدِّیْنِ ، فَلْیَتَّقِ اللّٰہَ فِیْ النِّصْفِ الْبَاقِیْ )) [2]
’’ ایک بندہ جب شادی کرلیتا ہے تو وہ آدھا دین مکمل کر لیتا ہے۔ اس لئے اسے باقی نصف کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے ۔ ‘‘
دوسری روایت میں اس حدیث کے الفاظ یوں ہیں:(( مَنْ رَزَقَہُ اللّٰہُ امْرَأَۃً صَالِحَۃً فَقَدْ أَعَانَہُ عَلٰی شَطْرِ دِیْنِہٖ ،فَلْیَتَّقِ اللّٰہَ فِیْ الشَّطْرِ الْبَاقِی ))
’’ جس آدمی کو اللہ تعالیٰ نیک بیوی دے دے تو اس نے گویا آدھے دین پر اس کی مدد کر دی ۔ لہٰذا وہ باقی نصف دین میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے ۔ ‘‘
اس حدیث میں ’’ نیک بیوی ‘‘ کا ذکر ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نیک بیوی عطا کردے توگویا اس نے اس کیلئے آدھا دین آسان فرما دیا اور اس پر عملدر آمد کیلئے اس کی مدد کردی اور نیک بیوی کا حصول یقینا بہت بڑی نعمت ہے ۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیک بیوی کو انسان کی سعادتمندی کی دلیل قرار دیا ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( أَرْبَعٌ مِنَ السَّعَادَۃِ:اَلْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ،وَالْمَسْکَنُ الْوَاسِعُ،وَالْجَارُ الصَّالِحُ، وَالْمَرْکَبُ الْہَنِیْئُ )) [3]
[1] صحیح البخاری،النکاح باب الترغیب فی النکاح:5063،صحیح مسلم،النکاح :1401
[2] صحیح الترغیب والترہیب للألبانی 1916
[3] صحیح الترغیب والترہیب للألبانی :914