کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 128
’’ اور اپنے گھروں میں ٹک کر رہو ۔ ‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ عورت کا دائرۂ عمل گھر کی چاردیواری کے اندر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے مسجد میں باجماعت نماز ، جمعہ اور جہاد جیسی اہم عبادات سے مستثنی کیا گیا ہے ۔ اوراسے اکیلے سفر کرنے سے منع کردیا گیا ہے بلکہ حج بیت اللہ جیسے اہم فریضۂ الٰہی کی ادائیگی کیلئے بھی سفر کرنے کی صرف اس صورت میں اسے اجازت دی گئی ہے کہ اس کے ساتھ اس کا خاوند یا محرم موجود ہو ۔ اس سے ثابت ہوا کہ بنیادی طور پر عورت کی جائے قرار اس کا گھر ہے اور بغیر ضروری حاجت کے گھر سے نکلنا اس کیلئے درست نہیں ہے ۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( اَلْمَرْأَۃُ عَوْرَۃٌ ، فَإِذَاخَرَجَتِ اسْتَشْرَفَہَا الشَّیْطَانُ ، وَأَقْرَبُ مَا تَکُوْنُ مِنْ رَحْمَۃِ رَبِّہَا وَہِیَ فِیْ قَعْرِ بَیْتِہَا[1]))
’’ خاتون ستر ( چھپانے کی چیز ) ہے ۔ اس لئے جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کی تاک میں رہتا ہے ۔ اور وہ اپنے رب کی رحمت کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہو تی ہے جب وہ اپنے گھر کے اندر ہوتی ہے ۔ ‘‘
گھر چونکہ عورت کا اصل ٹھکانہ ہے اس لئے کسی کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اجازت طلب کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ گھروں کی عزت وحرمت محفوظ رہے اور شکوک وشبہات پیدا نہ ہوں ۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی آنکھ پھوڑنے کی اجازت دی ہے جو بغیر اجازت کے کسی کے گھر میں جھانک کر دیکھے ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں گھر اور چاردیواری کی حرمت کا تحفظ کتنی اہمیت کا حامل ہے !
اوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کی اس نماز کو افضل قرار دیا ہے جسے وہ اپنے گھر کے اندر ادا کرے ۔
چنانچہ حضرت ام حمید رضی اللہ عنہا نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( مسجد نبوی میں ) نماز پڑھنے کی رغبت ظاہر کی تو آپ نے فرمایا :’’ مجھے معلوم ہے کہ تم میرے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی ہو لیکن گھر میں نماز پڑھنا تمھارے لئے بہتر ہے ۔‘‘
اس کے بعد حضرت ام حمید رضی اللہ عنہا نے اپنے گھر کے اندرونی کمرہ کے ایک نہایت تاریک کونے میں اپنے لئے جائے نماز بنا لی ۔ پھر وہ ساری زندگی اسی پر نماز پڑھتی رہیں۔[2]
تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ عورت کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ اپنے گھر کے اندر رہے اور بغیر کسی
[1] ابن حبان:413/12: 5599وصحح إسنادہ الأرناؤط،وأخرج الجزء الأول منہ الترمذی :1773وصحح إسنادہ الشیخ الألبانی فی المشکاۃ :3109
[2] أحمد:371/6،ابن حبان:596/5:2217قال الألبانی فی صحیح الترغیب:حسن لغیرہ