کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 122
’’ لیکن اگر تمھیں یہ خوف ہو کہ تم ان میں عدل وانصاف نہ کر سکو گے تو ایک ہی کافی ہے یا تمھاری ملکیت کی لونڈی ۔ یہ اس اعتبار سے زیادہ مناسب ہے کہ تم بے انصافی کے مرتکب نہیں ہو گے ۔ ‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (( مَنْ کاَنَتْ لَہُ امْرَأَتَانِ فَمَالَ إِلیٰ اِحْدَاہُمَا جَائَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَشِقُّہُ مَائِلٌ)) [1] ’’ جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک ہی کی طرف مائل ہوا ( اور دوسری کو نظر انداز کردیا) تو قیامت کے دن وہ اس حالت میں آئے گا کہ اس کے جسم کا ایک حصہ ساقط ہو گا۔ ‘‘ 7۔ موت کے بعد بھی بیوی سے وفا کی جائے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے کسی پر کبھی اتنی غیرت نہیں آئی جتنی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر آتی تھی حالانکہ میں نے انھیں نہیں دیکھا تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر وبیشتر اس کا تذکرہ کرتے رہتے تھے ۔ اور بعض اوقات بکری ذبح کرتے تو اس کے گوشت کے کچھ ٹکڑے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوں میں بھی بھیجا کرتے ۔ اس پر میں کبھی کبھی یہ بھی کہہ دیتی کہ شاید دنیا میں اور کوئی عورت ہی نہیں ہے سوائے خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے فضائل ذکر کرتے اور فرماتے : ’’میری اولاد بھی اسی سے ہوئی ہے۔‘‘ [2] برادران اسلام ! بیٹی ، ماں اور بیوی کے حقوق کے متعلق قرآن وحدیث کی جو نصوص ہم نے ذکر کی ہیں ایک طرف انھیں سامنے رکھیں اور دوسری جانب زمانۂ جاہلیت کی عورت کی حالت کوبھی مد نظر رکھیں تو اس سے آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ اسلام نے عورت کو معاشرے میں کتنا بڑا مقام دیا ہے اور اس کی کس طرح سے تکریم اور عزت افزائی کی ہے ! 2۔ زمانۂ جاہلیت کی عورت وراثت سے محروم تھی زمانۂ جاہلیت میں لوگ صرف مردوں کو وراثت کا حقدار سمجھتے تھے اور عورتوں اور بچوں کو اس سے محروم رکھا جاتا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :
[1] سنن أبی داؤد،النکاح باب فی القسم بین النساء:2133،سنن الترمذی،النکاح باب ما جاء فی التسویۃ بین الضرائر:1141، وصححہ الألبانی [2] صحیح البخاری،مناقب الأنصار باب تزویج النبی صلي الله عليه وسلم خدیجۃ وفضلہا:3818، صحیح مسلم:2437