کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 110
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میری گردن میں سونے کی صلیب تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( یَا عَدِیُّ ! اِطْرَحْ عَنْکَ ہٰذَا الْوَثَن ) ’’ اے عدی ! اس بت کو اتار پھینکو۔ ‘‘ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورت براء ت کی یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا : ﴿ اِتَّخَذُوْا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ﴾ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَمَا إِنَّہُمْ لَمْ یَکُوْنُوْا یَعْبُدُوْنَہُمْ،وَلٰکِنَّہُمْ کَانُوْا إِذَا أَحَلَّوْا لَہُمْ شَیْئًا اِسْتَحَلَّوْہُ،وَإِذَا حَرَّمُوْا عَلَیْہِمْ شَیْئًا حَرَّمُوْہُ)) [1] ’’ خبردار ! وہ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ وہ جب کسی چیز کو حلال قرار دیتے تو یہ اسے حلال تصور کر لیتے اور وہ جب کسی چیز کو حرام کہتے تو یہ اسے حرام مان لیتے ۔ ‘‘ گویا یہود ونصاری کا علماء اور درویشوں کو اپنا رب بنانے کا معنی یہ ہے کہ انھوں نے ان کو حلت وحرمت کے اختیارات دے رکھے تھے حالانکہ یہ اختیارات صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں ۔ اور آج مسلمانوں میں سے بھی بہت سارے لوگوں نے اپنے ائمہ ، فقہاء ، علماء اور پیروں کے اقوال کو بلا دلیل قبول کرنا واجب سمجھ رکھا ہے ۔ جسے تقلیدکہا جاتا ہے ۔ اس طرح بہت سے مسائل میں وہ غیر شعوری طور پر انھیں یہی اختیارات دیتے ہیں اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے عین مطابق ہے ۔ (۳) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (( لَیَأْتِیَنَّ عَلٰی أُمَّتِی مَا أَتٰی عَلٰی بَنِی إِسْرَائِیْلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ،حَتّٰی إِنْ کَانَ مِنْہُمْ مَنْ أَتٰی أُمَّہُ عَلَانِیَۃً لَکَانَ فِی أُمَّتِی مَنْ یَّصْنَعُ ذَلِکَ،وَإِنَّ بَنِی إِسْرَائِیْلَ تَفَرَّقَتْ عَلٰی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِیْنَ مِلَّۃً،وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِیْ عَلٰی ثَلَاثٍ وَّسَبْعِیْنَ مِلَّۃً،کُلُّہُمْ فِی النَّارِ إِلَّا وَاحِدَۃ)) قَالُوْا : وَمَنْ ہِیَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ قَالَ : (( مَا أَنَاعَلَیْہِ وَأَصْحَابِی )) [2] ’’ میری امت میں بھی ویسی ہی صورتحال پیدا ہو جائے گی جیسی بنی اسرائیل کی تھی اورمیری امت کی ان کے ساتھ مشابہت اتنی زیادہ ہوگی جتنی ایک جوتے کے جوڑے میں ہوتی ہے یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی شخص اپنی ماں سے علی الاعلان بد کاری کرے گا تو میری امت میں بھی ایسا شخص ضرور آئے گا اوربنو اسرائیل کے لوگ بہتر فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے جبکہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔سب کے سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے۔ ‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا : نجات پانے والی ایک جماعت کونسی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
[1] سنن الترمذی:3095وحسنہ الألبانی [2] سنن الترمذی:2641۔وصححہ الألبانی