کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 104
’’ عنقریب ایک آدمی اپنے تکیے کا سہارا لئے ہوئے میری احادیث میں سے ایک حدیث بیان کرے گااور پھر کہے گا : ہمارے اور تمھارے درمیان بس کتاب اللہ ( قرآن مجید ) ہی کافی ہے ۔ لہذا ہم جس چیز کو اس میں حلال پائیں گے بس اسی کو حلال سمجھیں گے اور جس چیز کو اس میں حرام پائیں گے بس اسی کو حرام سمجھیں گے ۔ خبر دار ! جس چیز کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حرام قرار دیں وہ بھی ایسے ہے جیسے اسے اللہ تعالیٰ نے حرام قراردیا ۔ ‘‘
ان دونوں احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی کہ کچھ لوگ آئیں گے جو صرف قرآن مجید کو حجت تصور کریں گے ۔اور جس چیز کو قرآن مجید میں حلال یا حرام کہا گیا ہو گا وہ صرف اسی کو حلال یا حرام مانیں گے اورجہاں تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیثِ مبارکہ کا تعلق ہے تو وہ ان کاانکار کردیں گے اور جس چیز کو ان میں حلال یا حرام قرار دیا گیا ہو گا وہ اسے حلال یا حرام نہیں مانیں گے ۔
یہ پیشین گوئی بھی بعینہ پوری ہو چکی ہے اور کئی لوگ جو اہلِ قرآن کے نام سے اب بھی موجود ہیں وہ صرف قرآن مجید کو حجت سمجھتے ہیں اور پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کو ناقابل ِ حجت تصور کرتے ہیں ۔
اور یہ بڑی عجیب سی بات ہے کہ ایک طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کی احادیث ِ مبارکہ کو یاد کرتے تھے اور کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم باقاعدہ انھیں لکھا بھی کرتے تھے ۔ جبکہ دوسری طرف کچھ لوگ انھیں سرے سے حجت ہی نہیں سمجھتے اورکئی لوگ انھیں حجت تو مانتے ہیں لیکن جب ان کے امام کا قول احادیث سے ٹکراتا ہو تو وہ اپنے امام کے قول کو چھوڑنے کی بجائے احادیث کی ناروا تاویلات کرتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے کس قدر لگاؤ اور پیار تھا اس کا اندازہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ایک قصہ سے کیا جا سکتا ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا : تم لوگ شاید یہ گمان کرتے ہو گے کہ ابوہریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت احادیث روایت کرتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا دن مقرر ہے ( اور اگر میں جان بوجھ کر جھوٹ بولتاہوں تو اللہ تعالیٰ مجھے ضرور سزا دے گا ۔) حقیقت یہ ہے کہ میں ایک مسکین آدمی تھا اور تھوڑا بہت کھا پی کر زیادہ تر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گذارتا تھا جبکہ مہاجرین رضی اللہ عنہم بازاروں میں کاروبار میں مصروف رہتے تھے اور انصار ی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے مالوں کی حفاظت میں مشغول رہتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ انھیں اپنی زمینوں کا کام کاج ہی مشغول رکھتا تھا ۔۔۔ چنانچہ جب وہ غائب ہوتے تو میں حاضر ہوتا اور جب وہ بھول جاتے تومیں یاد رکھتا ۔]
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :