کتاب: زاد الخطیب (جلد2) - صفحہ 101
موت کیلئے جلد بازی کی ۔ تلوار کا قبضہ زمین پر ٹکایا اور اس کی نوک اپنے سینے پر رکھ کر اپنے جسم کا پورا وزن اس پر ڈال دیا اوریوں وہ خود کشی کرکے ہلاک ہو گیا ۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ أَہْلِ الْجَنَّۃِ فِیْمَا یَبْدُوْ لِلنَّاسِ وَہُوَ مِنْ أَہْلِ النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَعْمَلُ عَمَلَ أَہْلِ النَّارِ فِیْمَا یَبْدُوْ لِلنَّاسِ وَہُوَ مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ [1]))
’’ بے شک ایک آدمی بظاہر اہلِ جنت والا عمل کرتا ہے حالانکہ وہ اہلِ جہنم میں سے ہوتا ہے اورایک آدمی بظاہر اہلِ جہنم والا عمل کرتا ہے اور درحقیقت وہ اہلِ جنت میں سے ہوتا ہے ۔ ‘‘
اس واقعہ سے جہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیشین گوئی کی وہ حرف بحرف پوری ہوئی وہاں ہمیں اِس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اعمال کا دار ومدار خاتمہ پر ہے ۔ لہذا ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ زندگی اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق گذرے ، اُس کے احکام پر عمل کرتے ہوئے اور اُس کی محرمات سے اجتناب کرتے ہوئے ہم اُس ذمہ داری کو پورا کریں جس کیلئے ہمیں پیدا کیا گیا ہے ۔ تاکہ جب ہمارا خاتمہ ہو تو اُس وقت اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حسن ِ خاتمہ نصیب کرے اور برے خاتمہ سے بچائے ۔
5۔حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور دو جماعتوں کے درمیان صلح
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو گھر سے باہر لائے ، پھر اسے منبر پر لے گئے اور ارشاد فرمایا :
(( اِبْنِی ہٰذَا سَیِّدٌ ،وَلَعَلَّ اللّٰہَ أَنْ یُّصْلِحَ بِہٖ بَیْنَ فِئَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ [2]))
’’ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور شاید اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو جماعتوں کے درمیان صلح کرائے ۔ ‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی بھی بعینہ پوری ہوئی ۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو دوسری طرف حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہت بڑی فوج ان سے جنگ کرنے پر تیار ہو گئی لیکن حضرت حسن رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دستبردار ہو گئے جس سے مسلمانوں کی دو جماعتوں کے درمیان صلح کی راہ ہموار ہو گئی ۔ [3]
[1] صحیح البخاری :2898، صحیح مسلم :112
[2] صحیح البخاری :3629
[3] صلح کا یہ پورا واقعہ صحیح بخاری میں موجود ہے ۔حدیث : 2704