کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 99
اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے خاص طور پر ان مہاجرین وانصار کی تعریف فرمائی ہے جنہوں نے ’’ تنگی کے وقت ‘‘ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا۔ ’’ تنگی کے وقت ‘‘ سے مراد جنگِ تبوک ہے جس میں تنگی کا عالم یہ تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نہ کھانے کو کوئی چیز ملتی تھی اورنہ پینے کو پانی میسر تھا ، شدید گرمی کا موسم تھا ۔ سوار زیادہ تھے اورسواریاں کم تھیں ، لیکن اس قدر تنگی کے عالم میں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑا اور ہر قسم کی تنگ حالی کو برداشت کیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ’’ تنگی کے وقت ‘‘ کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا : ’’ ہم شدید گرمی کے موسم میں نکلے ، راستے میں ہم ایک جگہ پر رُکے جہاں ہمیں شدید پیاس محسوس ہوئی ، حتی کہ ہمیں ایسے لگا کہ ہماری گردنیں شدتِ پیاس کی وجہ سے الگ ہوجائیں گی ۔ اور حالت یہ تھی کہ ہم میں سے کوئی شخص جب اپنا اونٹ ذبح کرتا تو اس کے اوجھ کو نچوڑ لیتا اور جو پانی نکلتا اسے پی لیتا ۔ جب حالت اس قدر سنگین ہوگئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گذارش کی کہ اے اﷲ کے رسول ! اﷲ تعالیٰ آپ کی دُعا قبول کرتا ہے ، لہٰذا ہمارے لئے دعا کیجئے ۔ چنانچہ آپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور ابھی آپ کے ہاتھ واپس نہیں لوٹے تھے کہ ہم پر بادل چھاگئے اور بارش ہونے لگی ۔ پس تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے برتن بھر لئے ، پھر جب ہم وہاں سے روانہ ہوئے تو ہمیں معلوم ہوا کہ بارش تو محض اسی جگہ پر ہی ہوئی تھی جہاں ہم رکے ہوئے تھے۔‘‘ [1] اورحضرت قتادۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جنگ تبوک کے سفر میں کھانے پینے کی اس قدر کمی تھی کہ ایک کھجور کے دو حصے کرکے دو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپس میں بانٹ لیتے ۔ اور شدتِ پیاس کو بجھانے کے لئے کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک ہی کھجور کو باری باری چوستے رہتے ۔ جبکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ’’ ہم غزوۂ تبوک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، اس دوران لوگ شدتِ بھوک میں مبتلا ہوئے اور کہنے لگے ، اے اﷲ کے رسول ! اگر آپ اجازت دیں تو ہم اپنے اونٹ ذبح کرلیں ۔ تو آپ نے اجازت دے دی لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے : اے اﷲ کے رسول ! اگر یہ اپنے اونٹ ذبح کریں گے تو سواریاں کم ہوجائیں گی ، آپ انہیں حکم دیں کہ ان
[1] تفسیر القرطبی: 279/8،تفسیر ابن کثیر:522/2