کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 93
یومِ عاشوراء کے روزے کی فضیلت
حضرت ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے یومِ عاشوراء کے روزے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(یُکَفِّرُ السَّنَۃَ الْمَاضِیَۃَ ) [1]
یعنی ’’پچھلے ایک سال کے گناہوں کو مٹادیتا ہے ۔‘‘
اس حدیث کے پیش نظر ہر مسلمان کو یومِ عاشوراء کے روزے کا اہتمام کرنا چاہئے اور اتنی بڑی فضیلت حاصل کرنے کا موقعہ ملے تو اسے ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
لیکن افسوس صد افسوس ! اس دور میں معیار تبدیل ہوگیا ہے ، لوگوں نے اس دن کے حوالے سے کیا کیا بدعات ایجاد کرلی ہیں ، سنت بدعت بن گئی ہے اور بدعت کو سنت تصور کیا جانے لگا ہے ! بجائے اس کے کہ اس دن کا روزہ رکھا جاتا اور پچھلے ایک سال کے گناہ معاف کروانے کا جو سنہری موقعہ ملا تھا اس سے فائدہ اٹھایا جاتا ، اس کے بجائے لوگوں نے یہ دن کھانے پینے کا دن تصور کرلیا ہے ۔ لہٰذا خوب کھانے پینے کا اہتمام کیا جاتا ہے ، خصوصی ڈشیں تیار کی جاتی ہیں ، پانی اور دودھ کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا جاتا ہے ۔۔۔۔۔ نہیں معلوم یہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا غم ہے یا ان کی شہادت کا جشن ہے جو منایا جاتا ہے !
صومِ عاشوراء میں یہود کی مخالفت
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی امر میں اللہ کی طرف سے کوئی حکم نہ دیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اہلِ کتاب کی موافقت کو پسند فرماتے ۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ بات ثابت ہے ۔[2]
یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل کتاب کی مخالفت کرنے اور ان کی موافقت نہ کرنے کا حکم دیا گیا ۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بتلایا گیا کہ یہود ونصاری بھی دس محرم کی تعظیم کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں ان کی مخالفت کرنے کا عزم کر لیا ۔
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کا حکم دیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا کہ اس دن کی تو یہود ونصاریٰ بھی تعظیم کرتے ہیں !
توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] صحیح مسلم :1162
[2] صحیح البخاری:5917، نیز دیکھئے : اقتضاء الصراط المستقیم:466/1