کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 92
رکھتے تھے۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مسلمانوں کو اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا ،جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے ، جسے ہم نے ابھی ذکر کیا ہے ۔ اور حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ یہود یومِ عاشوراء کو عید کا دن تصور کرتے تھے اور اہلِ خیبر ( یہود ) اس دن اپنی عورتوں کو خصوصی طور پر زیورات وغیرہ پہنا کر خوشیاں مناتے تھے ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( فَصُوْمُوْہُ أَنْتُمْ) ’’ تم اس دن کا روزہ رکھا کرو ۔ ‘‘[1] باقی جہاں تک قصۂ نجاتِ موسی علیہ السلام وبنی اسرائیل اور غرقِ فرعون کا تعلق ہے تو وہ قرآن مجید میں تفصیلاً موجود ہے ۔ اسی طرح صحیح روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جاہلیت کے دور میں بھی لوگ اس دن کی تعظیم کرتے تھے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت جسے ہم ذکر کر چکے ہیں ‘ سے معلوم ہوتاہے ۔اس کے علاوہ اور کوئی بات صحیح سند سے ثابت نہیں ہے۔ تنبیہ : مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ (وَہُوَ الْیَوْمُ الَّذِیْ اسْتَوَتْ فِیْہِ السَّفِیْنَۃُ عَلَی الْجُوْدِیِّ فَصَامَہُ نُوْحٌ شُکْرًا) ’’ یوم عاشوراء وہ دن ہے جس میں کشتی ٔ نوح علیہ السلام جودی پہاڑ پر جا لگی تھی ، چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر اس دن کا روزہ رکھا ۔ ‘‘ لیکن اس روایت کی سند میں ایک راوی عبد الصمد بن حبیب ہے جو کہ ضعیف ہے ۔اور دوسرا راوی شبیل بن عوف ہے جو کہ مجہول ہے۔ [2] اسی طرح طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ(وَفِیْ یَوْمِ عَاشُوْرَائَ تَابَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلیٰ آدَمَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ،وَعَلیٰ مَدِیْنَۃِ یُوْنُسَ،وَفِیْہِ وُلِدَ إِبْرَاہِیْمُ عَلَیْہِ السَّلاَمُ ) [3] ’’یوم عاشوراء کو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول کی۔ اسی طرح یونس علیہ السلام کے شہر والوںپر بھی اللہ تعالیٰ نے اسی دن خصوصی توجہ فرمائی اور اسی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی ۔ ‘‘ لیکن اس کی سند کے متعلق الحافظ الہیثمی کا کہنا ہے کہ اس میں ایک راوی عبد الغفور ہے جو کہ متروک ہے ۔
[1] صحیح البخاری:2005، صحیح مسلم :1131 [2] مسند أحمد: 335/14: 8717 [3] مجمع الزوائد :188/3