کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 91
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ جاہلیت کے دور میں قریش عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن کا روزہ رکھتے تھے ۔ پھر جب آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو بھی آپ اس دن کا روزہ رکھتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کا حکم دیتے تھے ، اس کے بعد جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار دے دیااور فرمایا : ’’ جس کا جی چاہے اس دن کا روزہ رکھ لے اور جو چاہے اس کو چھوڑ دے ۔ ‘‘ 3۔ حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اکرم صلي اللّٰه عليه وسلم نے مدینہ کے ارد گرد بسنے والی بستیوں میں یہ حکم بھیجا کہ بستیوں والے یومِ عاشوراء کا روزہ رکھیں ۔ چنانچہ ہم خود بھی روزہ رکھتے اور اپنے چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے ۔اور جب کھانے کے لئے بچے روتے تو ہم انہیں کھلونے دے دیا کرتے تھے تاکہ وہ ان کے ساتھ افطار تک دل بہلاتے رہیں۔[1] 4۔حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ میں آئے تو آپ نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں ، آپ نے ان سے پوچھا : تم اس دن کا روزہ کیوں رکھتے ہو ؟ انہوں نے کہا : یہ ایک عظیم دن ہے ، اس میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا ۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسی دن کا روزہ شکرانے کے طور پر رکھا ۔ اس لئے ہم بھی اس دن کا روزہ رکھتے ہیں ۔ اس پر آپ نے فرمایا : ( فَنَحْنُ أَحَقُّ وَأَوْلٰی بِمُوْسیٰ مِنْکُمْ )’’ تب تو ہم زیادہ حق رکھتے ہیں اور تمہاری نسبت ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ قریب ہیں ‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس دن کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا ۔[2] یومِ عاشوراء کی اہمیت ۔۔۔۔۔قدیم زمانے میں قدیم زمانے میں یومِ عاشوراء کی اہمیت کیا تھی ؟ اس بارے میں اگرچہ عام لوگوں میں بہت ساری باتیں مشہور ہیں، لیکن ہمیں صحیح روایات سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دن حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو نجات دی اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرقِ آب فرمایا۔ اسی وجہ سے یہود اس دن کا روزہ
[1] صحیح مسلم : 1136 [2] صحیح البخاری ، الصوم باب صیام عاشوراء :2004 ،صحیح مسلم :1130