کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 90
سے زیادہ کرنا چاہئے ، خاص طور پر نفلی روزے زیادہ رکھنے چاہئیں ، کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( أَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَہْرُ اللّٰه الْمُحَرَّمُ،وَأَفْضَلُ الصَّلاَۃِ بَعْدَ الْفَرِیْضَۃِ صَلاَۃُ اللَّیْل)) [1] ’’ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہ محرم کے روزے ہیں جو کہ اﷲ کا مہینہ ہے ۔ اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز ہے۔‘‘ خاص طور پر یومِ عاشوراء ’ دس محرم ‘ کا روزہ ضرور رکھنا چاہئے ، کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تک مکہ مکرمہ میں رہے مسلسل اس دن کا روزہ رکھتے رہے۔ پھر آپ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن کا روزہ رکھتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کا حکم دیا کرتے تھے۔اس کے بعد جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جو چاہے اس دن کا روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔‘‘ اس بارے میں چند احادیث سماعت فرمائیے : عن ابن عباس رضی اللّٰه عنہما قال:مَا رَأَیْتُ النَّبِیَّ صلي اللّٰه عليه وسلم یَتَحَرّٰی صِیَامَ یَوْمٍ فَضَّلَہُ عَلیٰ غَیْرِہٖ إِلاَّ ہَذَا الْیَوْمَ یَوْمَ عَاشُوْرَائَ،وَہَذَا الشَّہْرَ یَعْنِیْ شَہْرَ رَمَضَانَ۔[2] حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی نہیں دیکھا کہ آپ کسی ایک دن کو دوسرے دنوں پر فوقیت دیتے ہوئے اس کے روزے کا قصد کرتے ہوں سوائے یومِ عاشوراء کے اور سوائے ماہِ رمضان کے۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے علاوہ باقی دنوں میں سے یومِ عاشوراء کے روزے کا جس قدر اہتمام فرماتے اتنا کسی اور دن کا اہتمام نہیں فرماتے تھے ۔ عن عائشۃ رضی اللّٰه عنہا قالت:’’ کَانَتْ قُرَیْشُ تَصُوْمُ عَاشُوْرَائَ فِیْ الْجَاہِلِیَّۃِ،وَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم یَصُوْمُہُ،فَلَمَّا ہَاجَرَ إِلَی الْمَدِیْنَۃِ صَامَہُ وَأَمَرَ بِصِیَامِہٖ،فَلَمَّا فُرِضَ شَہْرُ رَمَضَانَ قَالَ:مَنْ شَائَ صَامَہُ،وَمَنْ شَائَ تَرَکَہُ‘‘[3]
[1] صحیح مسلم ۔ کتاب الصوم ،باب فضل صوم المحرم :1136 [2] صحیح البخاری ۔ الصوم باب صیام عاشوراء: 2006،صحیح مسلم :1132 [3] صحیح البخاری۔ الصوم باب صیام عاشوراء:2001 ،2003، صحیح مسلم ،الصیام باب فضل صوم یوم عاشوراء :1125 واللفظ لہ