کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 9
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’مجھے یہ بات پسند ہے کہ خطیب کی گفتگو انتہا ئی واضح اور دلنشیں ہو،وہ کسی بھی صورت میں چرب زبانی سے کام نہ لے،گفتگو کا تسلسل برقرار رکھے،جلد بازی سے اجتناب کرے ،اسکی گفتگو میانہ روی پر مبنی ہو،اس کا اسلوب پر تأثیر ہو اور تقریر جامعیت کی آئینہ دار ہو۔ ‘‘[1]
٭خطبہ میں جو علمی اور فکری مواد پیش کیا جائے وہ عقل ونقل کے اعتبار سے معیارِ صحت کے عین مطابق ہو اور توازن کی کسوٹی پر پورا اُترتا ہو، وہ کسی بھی صورت میں رطب ویابس او رفضول قصہ کہانیوں پر مشتمل نہ ہو۔
٭وہ موقع محل اور سامعین کی ضروریات کا آئینہ دار ہو۔ ایسا نہ ہوکہ مسلمانوں کی عزت و آبرو کو پامال کیا جارہا ہواور خطیب کھیتی باڑی کے مسائل بیان کرنے میں زورِ خطابت صرف کررہا ہو،فنِ بلاغت کی اصطلاح میں خطبہ مقتضی حال کے عین مطابق ہو۔
٭خطبہ کو خود اعتمادی کے ساتھ ایسے جاذب اور پر تاثیر انداز سے پیش کیا جائے کہ سامعین متاثر ہوں،کیونکہ دلنشین اسلوب کی بدولت تجارتی مسائل پر مشتمل خطبہ بھی آنکھوں میں ساون کی جھڑی کا باعث بن سکتا ہے جبکہ بے تکے انداز سے فکر آخرت جیسی تقریر سے بھی آنکھیں پر نم نہیں ہوتیں۔
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبات کی تاثیر کو باین الفاظ بیان کرتے ہیں کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وعظ سے آنکھیں بہہ پڑتیں اور دل دھل جاتے ۔ ‘‘[2]
لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں پاک وہند میں ایسے بازاری خطبات کی بہتا ت ہے کہ جن میں بے سروپا حکایات اور ضعیف بلکہ موضوع روایات کی بھرمار ہوتی ہے ۔ اکثر خطباء حضرات ان تیار شدہ خطبات کو سامنے رکھ کر لچھے دار اور دھواں دار خطبہ تیار کرتے ہیں۔ جوکچھ ان خطبات میں ہوتا ہے اسے بیان کرکے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو جاتے ہیں اور اصل مراجع ومصادر کی طرف رجوع کرکے تیاری کرنے کی وہ زحمت ہی گوارا نہیں کرتے ۔اسی طرح ہمارے ہاں ایسے خطباء بھی دستیاب ہیں جنہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ انہوں نے اپنے خطبہ میں کیا موضوع بیان کرنا ہے اور ان کا خطبہ کن کن نکات پر مشتمل ہوگا، اس لیے وہ غیر مرتب گفتگو کرتے ہیں،ایک موضوع شروع کرکے اس سے یوں نکلتے ہیں کہ خطبہ کے اختتام پر انہیں یاد تک نہیں رہتا کہ انہوں نے کس موضوع پر بات شروع کی تھی اور ان کی گفتگو کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی۔اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ایسے خطبات غیر مؤثر ثابت ہوتے ہیں اوران سے جو فائدہ ہونا چاہئے تھاوہ اس سے یکسر خالی ہوتے ہیں۔ ان حالات کے پیشِ نظر ایسے خطبات کی شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی تھی جو عام خطبات سے ہٹ کر صحیح علمی مواد پر مشتمل ہوں اور وہ ماہ و ایام کی مناسبات کے عین مطابق ہوں تاکہ خطباء اور واعظین بلکہ عام قارئین بھی ان سے استفادہ کر سکیں ،لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر کام
[1] کتاب الأم:343/1
[2] مسند إمام أحمد:126/1