کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 87
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے ، اس وقت حضرت حسین رضی اللہ عنہ میرے پاس تھے ، اچانک وہ ( حضرت حسین رضی اللہ عنہ ) رونے لگ گئے ، میں نے انہیں چھوڑا تو وہ سیدھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب جا کر بیٹھ گئے ۔ حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا : اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کیا آپ ان سے محبت کرتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ۔ تو حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا : بے شک آپ کی امت انہیں عنقریب قتل کردے گی ۔ اور اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو اس سر زمین کی مٹی دکھلا دوں جس پر انہیں قتل کیا جائے گا ۔ پھر انہوں نے اس کی مٹی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھلائی اور یہ وہ سرزمین تھی جسے کربلاء کہا جاتاہے۔[1] چنانچہ ہم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر سمجھتے ہیں جیسا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی بقضاء وقدرِ الٰہی شہید ہوئے ۔ اور آپ اس وقت شہید ہوئے جب آپ ۴۰؁ ھ میں سترہ رمضان بروزجمعۃ المبارک کو فجر کی نماز ادا کرنے کیلئے جا رہے تھے ! اسی طرح ان سے پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی ظالموں نے انتہائی المناک انداز میں شہید کیا ۔ اور آپ ماہِ ذو الحجہ ۳۶ ھ؁ میں ایامِ تشریق کے دوران شہیدہوئے اور ان سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اس وقت شہید ہوئے جب آپ فجر کی نماز میں قرآن مجید پڑھ رہے تھے اور یہ سب یقینی طور پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے افضل تھے اور ان کی شہادت کے واقعات زیادہ المناک اور افسوسناک ہیں ، لیکن ایسے تمام واقعات پر ہم سوائے ( إنا اللّٰه وإنا إلیہ راجعون ) کے اور کیا کہہ سکتے ہیں ! (۲) ماہِ محرم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم خصوصا ماہ محرم میں ایک اور ظلم یہ ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگردان گرامی ( صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) کو بُرا بھلا کہا جاتا اور انہیں سب وشتم کیا جاتا ہے۔ حالانکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہنا اور گالیاں دینا حرام ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق اہل سنت والجماعت کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے امام طحاوی رحمہ اﷲ کہتے ہیں : ’’ نحبّ أصحاب رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم ،ولا نفرط فی حبّ أحد منھم،ولا نتبرأ من أحد منہم،ونبغض من یبغضہم وبغیر الخیر یذکرہم،ولا نذکرہم إلاّ بخیر،وحبّہم دین
[1] أخرجہ أحمد فی فضائل الصحابۃ بسند حسن :782/2:1391