کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 72
جمہور خطابت کا تیسرا رکن جمہور(مخاطبین یا سامعین) ہیں ۔ خطیب کو دوران خطبہ سامعین کی سوچ وفکر اور تعلیمی معیار کو مد نظر رکھنا چاہئے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے: (حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا یَعْرِفُونَ، أَتُحِبُّونَ أَنْ یُّکَذَّبَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ ) [1] ’’ لوگوں کے فہم وفراست کے معیار کے مطابق ان سے خطاب کرو۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی جائے؟‘‘ اور ہشام بن عروہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :( ما حدثت أحدا بشیٔ من العلم قط لم یبلغہ عقلہ الا کان ضلالا علیہ) [2] ’’آپ اگر کسی سے اس کے عقل وفہم کے معیار سے بلند ہو کر گفتگو کریں گے تو وہ گمراہ ہو جائے گا۔‘‘اور دوسری بات یہ ہے کہ خطیب کو ( انزلوا الناس منازلہم ) کا اصول پیش نظر رکھنا چاہئے کہ لوگوں کے ساتھ ان کے مقام مرتبہ کے حساب سے برتاؤ کرے۔ عوام الناس کے لیے آداب سامعین کے لیے ضروری ہے کہ خطاب کرنے والے کی گفتگو توجہ اور خاموشی سے سنیں۔ جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طرزعمل تھا کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطاب فرماتے تو وہ سراپا گوش بن کر کامل توجہ سے سماعت کرتے اور اپنی کیفیت بیان کرتے ہیں کہ (کأن علی رؤسنا الطیر)کہ دلچسپی اور توجہ کا عالم یوں ہوتا جیسا کہ ہمارے سروں پر پرندے ہوں اگر تھوڑی سے بھی حرکت کی تو اڑ جائیں گے۔ خطبۂ جمعہ کے آداب حضرت سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لاَ یَغْتَسِلُ رَجُلٌ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ ، وَیَتَطَہَّرُ مَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُہْرٍ ، وَیَدَّہِنُ مِنْ دُہْنِہٖ ، أَوْ یَمَسُّ مِنْ طِیْبِ بِیْتِہٖ ، ثُمَّ یَخْرُجُ فَلاَ یُفَرِّقُ بَیْنَ اثْنَیْنِ ، ثُمَّ یُصَلِّیْ مَا کُتِبَ لَہُ،ثُمَّ یُنْصِتُ إِذَا تَکَلَّمَ الْإِمَامُ ، إِلاَّ غُفِرَ لَہُ مَا بَیْنَہُ وَبَیْنَ الْجُمُعَۃِ الْأخْرٰی)) [3] ’’جمعہ کے دن جو شخص غسل کرتا اور اپنی استطاعت کے مطابق طہارت حاصل کرتا ،تیل لگاتا یا اپنے گھر سے
[1] فتح الباری:34/1 [2] مقدمہ صحیح مسلم [3] صحیح البخاری، الجمعۃ:883،صحیح مسلم:850