کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 71
یعنیہ وأن ینہی عن شئی ویأتیہ ) [1] ’’ خود پسندی ، فضول گفتگو اورکسی کام سے دوسروں کو منع کرنا اورخود وہ کام کرنا ۔‘‘ بقول شاعر ۔ع
المال آفتہ التبذیر والنھب والعلم آفتہ الاعجاب والغضب
عزت اور قبول عام اللہ تعالیٰ عطا کرنے والا ہے اور وہی لوگوں کے دلوں میں محبت ڈالنے والا ہے ۔اور پھر تشہیر اور خودنمائی کوئی قابل فخر چیز ہے بھی نہیں۔ع
لیس الخمول بعار علی امرء ذی الجلال فلیلۃ القدر تخفی وتلک خیر الیالی
بقول حضرت علامہ قاری عبد الخالق رحمانی رحمہ اللہ : ’’مجھے شیخ الاسلام مو لانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے یہ نصیحت فرمائی کہ ’’تکبر حرام اور عزت نفس فرض عین ہے۔‘‘
نوٹ : دوران خطبہ گلا خشک ہوجانے یا پیاس لگنے پر خطیب کیلئے منبر پر پانی پیناجائز ہے لیکن یہ بات مناسب نہیں کہ ایک آدمی چائے کا تھرماس لے کر پاس کھڑا ہو اور ہردو منٹ کے بعدخطیب یا مقرر کی خدمت میں چائے پیش کرے تا کہ اس کا گلہ چلتا رہے کیونکہ یہ تصنع اور تکلف شریعت میں منع ہے۔اور اس لئے بھی کہ دعوت و ارشاد فرض کفایہ ہے ۔ اگر ایک شخص اس قدر معذور ہے تو وہ آرام کرے اور کوئی دوسرا عالم دین اس کی جگہ پر خطبہ یا تقریر ارشاد فرما دے۔ اسی طرح اسٹیج پر آکر اپنی بیماری یا تکلیف کا اعلان کرنا بھی مستحسن امر نہیں ہے۔ ہم نے اپنے اساتذہ کرام سے استاذالعلما ء حضرت مولانا میر سیالکوٹی رحمہ اللہ کاناصحانہ مقولہ سنا ہے کہ وہ ایسے خطباء جو آغازِ خطاب میں اس طرح کے روایتی جملے ادا کرتے کہ (طبیعت علیل ہے ۔ سفر طویل ہے ۔ تھکاوٹ سے جسم نڈھال ہے)وغیرہ اداکرتے تو انہیں فرمایا کرتے تھے ’بھئی! اگر اتنے مریض ہو کہ تقریر نہیں کرسکتے تو خواہ مخواہ تکلف کیوں کرتے ہو ۔جاؤ آرام کرو ۔یہ لوگ اتنی دور سے آپ کی تیمار داری کرنے نہیں بلکہ تقریر سننے آئے ہیں ‘‘
یہ چند امور ہیں جن کی نشا ندہی سے مقصود پہلے نمبر پر اپنی اصلاح اور پھر اپنے احباب کیلئے تذکیر ہے {وَذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرَی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ } اوریہ حقیقت ہے کہ ہمارے قابل قدر بزرگ اور بھائی خطباء و مبلغین موجودہ حالات میں جس طرح دعوت وتبلیغ کا فریضہ ادا کرنے میں سر گرم عمل ہیں،ان کی یہ کاوشیں انتہائی قابل قدر ہیں ۔ اللہ تعالی سب کی جہود کو شرف قبولیت عطا کرے۔ آمین!
[1] جامع بیان العلم وفضلہ:142/1