کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 70
انبیاء علیہم السلام کی سیرت واحوال اور طرز تبلیغ کا مطالعہ کرے اور بالخصوص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر طائف کا کامل توجہ سے ذہن ودماغ کے دریچے وا کر کے مطالعہ کرے کہ اہل طائف کی بے پناہ اذیت کے باوجود بھی ان کے لیے بددعا نہیں کی اور مایوسی کا اظہار نہیں کیا بلکہ فرمایا: (إِنِّیْ اَسْأَلُ اللّٰہَ اَنْ یُّخْرِجَ مِنْ أَصْلَابِہِمْ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ وَلاَ یُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا ) [1] ’’میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ہی ایسے لوگ پیدا کردے جو اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں۔‘‘ ۱۵۔ذاتی اغراض کیلئے منبر رسول کو استعمال کرنا کسی خطیب کیلئے جائز نہیں کہ وہ شخصی مفاد یا اپنی مخصوص فکر اور نظریات کی تشہیر کے لئے جمعۃ المبارک کا قیمتی موقعہ اور منبر رسول جبسی اہم جگہ کو استعمال کرے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو ایسے خطر ناک افراد سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا : ’’ أَخْوَفُ مَا أَخَافُ عَلٰی أُمَّتِیْ کُلُّ مُنَافِقٍ عَلِیْمِ اللِّسَانِ‘‘[2] کہ میں اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ خطرہ ایسے منافقوں سے محسوس کرتا ہوں جو چرب لسانی میں ما ہر ہو نگے‘‘ اور دوسری روایت میں ہے :’’اِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلٰی أُمَّتِی الْأئِمَّۃُ الْمُضِلُّوْنَ‘‘[3] ’’میں اپنی امت کے بارے میں مسند علم کے گمراہ کن قابضین سے بہت زیادہ خطرہ محسوس کرتا ہوں۔‘‘ ۱۶۔تواضع اور انکساری ایک داعی اور خطیب کو متواضع اور منکسر مزاج ہونا چاہئے۔کیونکہ یہ علمائے حق اور اہل اللہ کی پہچان ہے اور عزت کے حصول کا زینہ ہے ۔حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی مکرم کاارشاد گرامی ہے: (مَا تَوَاضَعَ اَحَدٌ لِلّٰہِ اِلاَّ رَفَعَہُ اللّٰہُ ) [4]’’ جوشخص بھی اللہ کی رضا کیلئے تو اضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالی اسے عزت عطا کرتا ہے ‘‘ اورعجب اور خود پسندی اور تکبر سے ایک داعی کو کوسوں دور رہنا چا ہئے کیونکہ نبی اکرم نے ان کو مہلکات میں شما رکیا ہے (اِعْجَابُ الْمَرْئِ بِنَفْسِہٖ)[5] اور حضرت ابوالدرداء فرماتے ہیں: جہالت کی تین علامات ہیں : (العجب،وکثرۃ المنطق فیما لا
[1] صحیح البخاری:3231،صحیح مسلم:1790 [2] صحیح الجامع الصغیر:239 [3] صحیح الجامع الصغیر:1551 [4] صحیح مسلم : 2588 [5] صحیح الجامع الصغیر:3045