کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 68
کے دوران بحیثیت عالم دین اور مبلغ اسلام اپنے مقام ومرتبہ کا خیا ل رکھے ۔کیونکہ عوام خطیب ومبلغ کے کردار وعمل اور معاملات کا بڑی باریک بینی سے مشاہدہ کرتے ہیں اور سچ ہے کہ ’’زلۃ العالم زلۃ العالم‘‘ایک عالم کی لغزش عالم(جہان) کی تباہی ہے۔ بقول شاعر: لاتنہ عن خلق وتأتی مثلہ عار علیک اذا فعلت عظیم یعنی ’اوروںکونصیحت خود میاں فضیحت ‘ والا معاملہ نہ ہو ۔ ارشاد باری ہے: {یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ ،کَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللّٰه أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ}[1] اور دوسری جگہ ارشاد ہے: {أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَکُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْکِتَابَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ}[2] اور حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں معراج کی رات ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا کہ جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں کے ساتھ کاٹے جا رہے تھے۔تو میں نے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ تو بتایا گیا کہ یہ اہل دنیا کے خطباء میں سے ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے اور خود عمل نہیں کرتے تھے اوروہ کتاب بھی پڑھتے تھے ۔کیا ان کو عقل نہیں تھی۔[3] اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: (یُجَائُ بِرَجُلٍ فَیُطْرَحُ فِی النَّارِ فَیَطْحَنُ فِیْہَا کَمَا یَطْحَنُ الْحِمَارُ بِرَحَاہُ ، فَیُطِیْفُ بِہٖ اَہْلُ النَّارِ فَیَقُولُونَ: أَلَسْتَ کُنْتَ تَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَی عَنِ الْمُنْکَرِ؟ فَیَقُولُ : إِنِّی کُنْتُ آمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَلاَ أَفْعَلُ وَأَنْہَی عَنِ الْمُنْکَرِ وَأَفْعَلُہُ) [4] ’’ایک آدمی کو لاکرآگ میں پھینکا جائے گا تو وہ اس میں اس طرح چکر لگانا شروع کرے گا جیسا کہ گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے ۔ اسے اہل جنہم کے درمیان چکر لگوایا جائے گا تو وہ لوگ اس سے دریافت کریں گے کہ اے فلاں!کیا تو نیکی کا حکم کرتااور برائی سے روکا نہیں کرتا تھا ؟ تو وہ جواب دے گا: میں نیکی کا حکم دیتا تھا لیکن خود عمل نہیں کرتا تھا اور برائی سے روکتا تھا لیکن خود اس میں ملوث ہوتا تھا۔‘‘ ع فکم أنت تنہی ولا تنتھی وتسمع وعظا ولا تسمع
[1] الصف61:2-3 [2] البقرۃ2:44 [3] مسند أحمد:120/3 [4] صحیح البخاري:7098،صحیح مسلم:2989