کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 67
دعوت الی اللہ کے لیے بھیجا تو حکم دیا :{ وَقُولَا لَہُ قَوْلاً لَیِّنًا }کہ اس کے ساتھ نرم لہجے میں گفتگو کرنا کیونکہ یہ دعوت وتبلیغ کا فطری مزا ج ہے۔
اور حالی مرحوم نے بڑے درد بھرے انداز میں غیر تربیت یافتہ واعظین اور خطباء جو محبت کے دیے جلانے کی بجائے نفرتوں کے مینار تعمیر کرتے ہیں ان کا شکوہ کیا ہے کہ
بڑھے جس سے نفرت وہ تقریر کرنی جگر جس سے شق ہو وہ تحریر کرنی
گناہگار بندوں کی تحقیر کرنی مسلمان بھائی کی تکفیر کرنی
یہ ہے عالموں کا ہمارے طریقہ یہ ہے ہادیوں کا ہمارے سلیقہ
بلکہ خطیب اور مبلغ ایک طبیب اور معالج ہے اسے شفقت اور ہمدردی سے انسانوں کی اصلاح کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
{فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِیْ الأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ إِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ}[1]
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:( اِنَّ الرِّفْقَ لَا یَکُونُ فِیْ شَیٍٔ إِلَّا زَانَہُ وَلاَ یُنْزَعُ مِنْ شَیٍٔ اِلَّا شَانَہُ) [2] ’’نرمی حسن وخوبصورتی میں اضافے کا باعث اور سختی قابل مذمت اور بدنمائی کا باعث ہے۔‘‘
۱۱ ۔حلم وبرد باری
خطیب و داعی کو حلیم الطبع اور متحمل مزاج ہونا چا ہئے کیونکہ ان صفات سے عاری خطباء ومبلغین کوئی خلاف طبع چیز دیکھ کریا مخالف کے اعتراض و تنقید پر فورا سیخ پا ہو جاتے اور جوش میں ہوش کھو بیٹھتے ہیں اور ذہنی دباؤ کا شکا ر ہو جاتے ہیں۔جس کے نتیجہ میں نہ تو موضوع کی پابندی رہتی ہے اور نہ خطبہ کا مقصود حاصل ہوتا ہے ۔لہٰذا ایسے موقعہ پر خطیب کو عفو و در گزر سے کام لیتے ہوئے اہدافِ خطبہ کے حصول کے لئے کوشاں رہنا چا ہئے۔ع:
والعفو یعقب راحۃ و محبۃ والصفح عن زلل المسئی جمیل
۱۲۔قدوہ اور نمونہ
خطیب کو چاہئے کہ عالم باعمل کاکردار پیش کرے اور شرعی ا مور کے التزام اور لوگوں کے ساتھ عام تعامل
[1] آل عمران3:159
[2] صحیح مسلم