کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 66
یاوہ گوئی اور لوگوں کو ہنسانے کی غرض سے جگتیں مارنا ، لطیفہ گوئی اور عجیب وغریب حرکات واشارات کرناخطیب اسلام کی شان ومنصب کے منافی ہیں۔اسی طرح بار بار داڑھی کھجلانا،پسینہ پونچھنا ، گھڑی دیکھنا،ذہنی دباؤ کا شکار ہونا، بلاوجہ کھنکارنا،بلاوجہ ہنسنا یہ تمام خطیب کی شکست خوردگی کی علامات ہیں ۔ ان سے قطعی گریز کرنا چاہئے۔
لوگوں کو خطاب کرتے وقت ان کی عزت نفس اور وقار کو ملحوظ رکھنا چاہئے اورکسی کو نشانہ بنا کر بھرے مجمع میں اس کی تذلیل وتحقیر اور سبکی کرنا قطعا جائز نہیں اگرچہ مخاطب کی اصلاح ہی مقصود کیوں نہ ہو ۔یہ انداز نصح وارشاد کے خلاف ہے۔اسی لیے امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
تعمدنی بنصحک فی انفراد وجنبی النصیحۃ فی الجماعۃ
فان النصح بین الناس نوع من التوبیخ لا ارضی استماعہ
فان خالفتنی وعصیت قولی فلا تجزع إذا لم تعط طاعۃ
۹۔مناسب اشارے اور وقفات
مقرر اور خطیب کو چاہئے کہ وہ اپنے اشارات اور وقفات میں موضوع کی مناسبت کا خیال رکھے تا کہ سا معین کیلئے موضوع کو سمجھنے میں دشواری پیش نہ آئے۔جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی۔ مثلاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب فرمایا : ’’أَنَا وَ کَافِلُ الْیَتِیْمِ کَہَاتَیْنِ فِی الْجَنَّۃِ‘‘ تو اپنی دو مبارک انگلیوں کو ملا کر اشارہ کیااور اسی طرح آواز میں موقعہ ومحل اورموضوع کی مناسبت سے اتار چڑھاؤسے خطبہ اور وعظ میں حسن پیدا ہوتا ہے۔ اورایک ہی ردہم سے لوگ اکتا جاتے ہیں۔
۱۰۔نرمی گفتار
شیریں کلام ‘محبت بھرا اسلوب اور میٹھا انداز بیان ایک داعی یا خطیب کا توشہ و زادِ راہ ہے ۔ اسے قطعا زیب نہیں دیتا کہ وہ جارحانہ اور دھمکی آمیز اسلوب اور نفرت انگیز الفاظ استعمال کرے ۔کیونکہ اسے تو ایک طبیب حاذق اور ماہر فن معالج کی طرح سامعین کے سامنے خیر خواہی اور ہمدردی کے جذبات لے کر منبر یا اسٹیج پر آنا چاہئے۔کیونکہ :ع
جہاں رام ہوتا ہے میٹھی زبان سے مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
اللہ تعالیٰ نے تو فرعون جیسے سب سے بڑے اللہ کے باغی کی طرف جب موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کو