کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 65
کیونکہ تمام لوگوں کی نگاہ خطیب پر ہوتی ہے۔ یہ سادگی یا تقوی کی کوئی قسم نہیں کہ انسان عمداً اور تکلفاً مجمع میں آنے کے لیے بوسیدہ اور سلوٹ زدہ پوشاک زیب تن کر کے لوگوں کے سامنے اپنی سادگی اور فقیری کا مظاہرہ کرے اور کفران نعمت کا مرتکب بھی ہو ۔ اور لوگ بھی اسے اچھی نگاہ سے نہ دیکھیں حالانکہ خطیب تو قدوہ اور آئیڈیل ہوتا ہے ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو عام سامعین کو فرمایا ہے: (( مَنْ جَائَ مِنْکُمُ الْجُمُعَۃَ فَلْیَغْتَسِلْ)) [1] ’’جو شخص جمعہ کے لیے آئے اسے چاہئے کہ غسل کرکے آئے۔‘‘ اورابو داؤد میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( مَا عَلٰی اَحَدِکُمْ إِنْ وَّجَدَ اَوْ مَا عَلٰی اَحَدِکُمْ اِنْ وَّجَدتُّمْ اَنْ یَّتَّخِذَ ثَوْبَیْنِ لِیَوْمِ الْجُمُعَۃِ سِوَی ثَوبَیْ مِہْنَتِہٖ) [2] ’’کیا وجہ ہے کہ جس کے پاس گنجائش ہے وہ پھر بھی اپنے کاروباری لباس کے علاوہ جمعہ کے لیے خصوصی لباس نہیں بناتا؟‘‘ اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کَانَ لِلنَّبِیِّ صلي اللّٰه عليه وسلم بُرْدٌ یَلْبَسُہَا فِی الْعِیْدَیْنِ وَالْجُمُعَۃِ[3] ’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاایک دھاری دارحلہ تھے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین اور جمعہ کے لیے زیب تن فرمایا کرتے تھے۔‘‘ لیکن لباس کی عمدگی اور نظافت کے ساتھ ساتھ لباسِ شہرت اور خطیب وداعی کے غیر شایان شان لباس سے بھی اجتناب کرنا چاہئے۔ ڈاکٹر شریم فرماتے ہیں: أنہ یستحب التجمل زیادۃ علی الآخرین وہذا ہو الذی فہمہ أہل العلم من ہذہ الاحادیث[4] ’’ان احادیث مبارکہ سے اہل علم نے یہی اخذ کیا ہے کہ خطیب کو باقی لوگوں کی نسبت وضع قطع اور لباس کی عمدگی کا زیادہ اہتمام کرنا چاہئے۔‘‘ ۸۔انداز بیان اندازِ بیان گرچہ میر ا شوخ نہیں اتنا شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات خطیب کا انداز بیان انتہائی سنجیدہ ، مہذب ، شائستہ اور دل نشین ہونا چاہئے۔ عامی اور گھٹیا زبان،فحش مذاق،
[1] صحیح مسلم:1394 [2] سنن أبی داؤد:910 [3] السنن الکبری:350/3 [4] الشامل،ص107