کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 64
گہنانے کی کوشش کرنے اور روحِ تلاوت کے منافی انداز کو اختیار کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔ چنانچہ انیس الخطباء میں خطیب کے عیوب اور خامیاں بیان کرتے ہوئے سب سے پہلے اسی چیز کا ذکر کیا گیا ہے۔ اللحن وافحشہ ما کان فی آیۃ أو حدیث ،ثم ما غیر المعنی، قال عبدالملک بن مروان: الاعراب جمال لوضیع واللحن ہجنۃ علی الشریف والعجب آفۃ الرأی وأعظم اسباب اللحن الجہل بعلمی النحو والصرف۔[1] ’’کہ حروف کی صحیح مخارج سے عدم ادائیگی اور اعرابی غلطیاں خطابت کے بدنما عیوب میں سے ہے اور قرآن وحدیث کی نصوص میں لحن بہت بڑا قبیح جرم ہے۔ اور خاص کر وہ انداز جس سے معانی میں تبدیلی واقع ہو۔عبدالملک بن مروان کا مشہور قول ہے:فصاحت لسانی عام آدمی کے لیے جمال ووقار اور لحن واعرابی غلطیاں اور مخارج کا خیال نہ رکھنا یہ شریف آدمی کے لیے عار ہے ۔ اور خود پسندی آفت رائے ہے ۔ اور لحن کے اسباب میں سے بنیادی سبب صرف ونحو کے علم سے نا آشنائی ہے۔‘‘ ۶۔تقلید ونقالی سے گریز معروف خطباء ومبلغین کے خطابات اور تقاریر سے استفادہ ایک مستحسن اور مفید چیز ہے لیکن ان کی بہ صد تکلف نقالی اور بے محل اس کا استعمال ایک غیر پسندیدہ عمل ہے جس سے ایک تونقل کرنے والے کی شخصیت متاثر ہوتی ہے۔ دوسرے بعض اوقات غلط نقالی ان قابل قدر اور معروف خطباء کی شخصیات کو بدنام کرنے کا باعث بنتی ہے کہ جن کی نقل کی جا رہی ہو ۔ ویسے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو تکلف سے منع فرمایا۔ {وَمَا اَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ}[2] ’’میں تکلف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں :’’نُہِیْنَا عَنِ التَّکَلُّفِ‘‘[3] ’’ ہمیں تکلف سے منع کیا گیا ہے۔‘‘ اور تیسرا یہ اسلوب علم وتحقیق کے منافی ہے۔ ۷۔حسن منظر خطیب کو چاہئے کہ عوام الناس کو خطاب کرتے وقت اپنی وضع قطع اور لباس کی صفائی کا خصوصی اہتمام کرے
[1] أنیس الخطباء،ص115 [2] ص38:86 [3] صحیح البخاری