کتاب: زاد الخطیب (جلد1) - صفحہ 63
’’ اے پیغمبر! فرما دیجئے یہ میرا طریقہ ہے ، میں علی وجہ البصیرت اللہ کی طرف دعوت دیتا ہوں اور میرے ماننے والے بھی ‘اور اللہ تعالیٰ پاک ہے اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں۔‘‘
حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ بصیرت سے مراد علم ہے۔اور امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآن کریم کی آیت مبارکہ {فَاعْلَمْ أَنَّہُ لَا اَلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ}[1]کے تحت عنوان قائم کیا ہے :باب العلم قبل القول والعمل ۔ یعنی کسی بھی چیز کی طرف زبانی دعوت اور عملی تطبیق سے قبل اس کے بارے میں جاننا اور علم حاصل کرنا ضروری ہے۔[2]
۴ ۔خشیت الٰہی
خشیت الٰہی علم کا زیورخطباء و دعاۃ کا اصل سرمایہ اور زاد راہ ہے۔
اِرشاد باری ہے: {اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَائُ}[3]
اور یہ کامیابی کی کلید ہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک روایت میں نجات اور کامیابی کا ذریعہ بننے والے اوصاف کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:(وَخَشْیَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی فِی السِّرِّ وَالْعَلَانِیَۃِ) [4]کہ جلوت و خلوت میں اللہ تعالی سے ڈرتے رہنا ۔ اور خود امام الدعاۃ اور سید الخطباء اور اشرف الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارے میں تحدیث نعمت کے طور پر فرمایا: ( وَاللّٰہِ اِنِّی لَارْجُوْ أَنْ أَکُونَ أَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَاَعْلَمَکُمْ بِمَا اَتَّقِیْ) [5] کہ مجھے امید ہے کہ میں آپ سب کی بہ نسبت اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والا ہوں ۔
۵۔فصاحت وبلاغت
خطیب کو چاہئے کہ خطبہ میں حسن القاء کے ساتھ ساتھ الفاظ کی صحیح مخارج سے ادائیگی کا اہتمام اور غریب و غیر مانوس اورپیچیدہ الفاظ کے استعمال سے گریز اور نصوص کے صحیح اعراب کا التزام اور تلاوت قرآن میں قواعد تجوید کا پورا خیال رکھے ۔ پرتکلف جملہ بازی اور سجع اور گانے کی طرز پر ترنم اور اپنی لے اور سرو تال کو برقرار رکھنے کے لیے بے جا حروف کو لمبا کرنا اور بے تکی مدیں اور شدیں اور غنے پیدا کرکے قرآن کریم کے حسن وجمال کو
[1] محمد47:19
[2] صحیح البخاری:کتا ب العلم،باب11
[3] فاطر35:28
[4] صحیح الجامع الصغیر:3045
[5] صحیح مسلم :1110